لاہو ر(آئی این پی )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ میں مقدمات کا بہت زیادہ بوجھ ہے، روایتی طریقوں سے اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلے ممکن نہیں ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے جدید طریقہ کار کو اپنایا جائے۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کے ساتھ صوبہ بھر کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کے صدور نے ملاقات کی، ملاقات میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ملک آصف نسوانہ، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر احسن حمید اللہ، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر ملک جاوید ڈوگر، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے صدر چودھری ندیم اقبال بھی موجود تھے۔ملاقات میں وکلا برادری کے مسائل، عدالتی اصلاحات اور انتظامی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز کے صدور کو عدالتی اصلاحات اور نئے ایس او پیز سے متعلق آگاہ کیا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے وکلا رہنماں کو ضلعی عدلیہ میں کیس دائر کرنے کے نئے ایس او پیز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ضلعی عدلیہ میں بوگِس و جعلی مقدمات کی روک تھام کے لئے ایس او پیز مرتب کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بوگِس و خود ساختہ کاغذات کے ذریعے سرکاری خزانے سے فراڈ ادائیگیوں کی روک تھام کے لئے موثر طریقہ کار اپنایا گیا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ تمام مقدمات کی انفارمیشن شیٹ کو ہر لحاظ سے مکمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کا کہنا تھا کہ کیس انفارمیشن شیٹ پر مدعی و سائل کے دستخط یا نشانِ انگوٹھا کے ساتھ تصویر کی چسپاندگی لازمی ہے، تاہم مدعی یا سائل کسی بھی جگہ سے بذریعہ ویب کیمرہ اپنی تصویر کی چسپاندگی یقینی بنائے گا، انفارمیشن شیٹ پر مدعی یا سائل کا شناختی کارڈ نمبر اور موبائل نمبر بھی لازمی درج کیا جائے گا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ میں نئے فائل کورز کا نفاذ جون 2025 سے ہوگا، جس کے تحت لاہور ہائیکورٹ میں کیس فائلنگ کے لئے استعمال ہونے والے فائل کورز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مقدمات کی نوعیت و ترجیح کے اعتبار سے مختلف رنگوں کے فائل کورز و سٹرپس بنوائے گئے ہیں، سول، فوجداری، فیملی، کمرشل مقدمات کے لئے الگ الگ رنگ کی ٹیپ والے فائل کورز بنائے گئے ہیں، اسی طرح رٹ پٹیشنز کے لئے بھی سب کیٹگریز کے مطابق مختلف رنگوں کی ٹیپ اور سٹرپ استعمال کی گئی ہے، نئی ٹیپ اور سٹرپس والے فائل کورز بہت جلد مارکیٹ میں آجائیں گے۔چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے کہاکہ مقدمات کی نوعیت اور ترجیح کے مطابق جلد سماعت کے لئے کاز لسٹ بھی مختلف رنگوں میں نکالی جائے گی، کورٹس ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے شرکا کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کی موبائل ایپلی کیشن پر روزانہ کے مقدمات کی کاز لسٹ کو لائیو کردیا گیا ہے، وکلا اور سائلین موبائل ایپ پر دیکھ سکیں گے کہ کونسی عدالت میں کونسا مقدمہ زیرِ سماعت ہے، کاز لسٹ کی لائیو براڈکاسٹنگ کے لئے لاہور ہائیکورٹ کی تمام عدالتوں کے باہر ایل سی ڈیز بھی لگائی جائیں گی۔چیف جسٹس نے امید کا اظہار کیا کہ وکلا رہنما بذریعہ نوٹس بورڈز اور واٹس ایپ گروپس عدالتی اصلاحات اور نئے SOPs کے بارے وکلا کو بریفنگ دیں اور عدالتی اصلاحات پر وکلا کو اعتماد میں لیں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ساتھ ضلعی بار ایسوسی ایشن جھنگ کے وفد نے بھی ملاقات کی، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ امجد اقبال رانجھا بھی ملاقات کے موقع پر موجود تھے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں  9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،  جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔  بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • اہم شخصیات سے متعلق نازیبا ویڈیوز بنانے اور اپ لوڈ کرنے پر 24 گھنٹوں میں 23 مقدمات
  • لاہور : اہم شخصیات سے متعلق نازیبا ویڈیوز بنانے اور اپ لوڈ کرنے پر 24 گھنٹوں میں 23 مقدمات
  • نازیبا ویڈیوز کی تشہیر پر کریک ڈاؤن، لاہور میں پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج
  • لاہور: ڈاکوؤں کا شہریوں سے لوٹ مار کا نیا طریقہ واردات
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • ججزٹرانسفرکیس : رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ آئینی بنچ کو جواب جمع کرا دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ