وزیراعظم کی سپریم کورٹ بار کے نو منتخب احسن بھون گروپ کو مبارکباد، قائدانہ صلاحیتوں کو سراہا
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے احسن بھون گروپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے احسن بھون اور ان کے ساتھیوں کی قائدانہ صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ نئی قیادت نہ صرف وکلا برادری کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گی بلکہ ملک میں قانون کی حکمرانی، انصاف کی فراہمی اور جمہوری اقدار کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ احسن بھون اور ان کی ٹیم کی کامیابی نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہے بلکہ وکلا برادری کا ان پر اعتماد بھی ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار جیسا اہم ادارہ جب تجربہ کار، مدبر اور اصول پسند قیادت کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ ملک کی قانونی، آئینی اور جمہوری سمت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ وکلا برادری ہمیشہ آئین کی بالادستی اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں صف اول میں رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ احسن بھون گروپ اس روایت کو مزید مضبوط بنائے گا اور عدالتی اصلاحات، بروقت انصاف کی فراہمی اور عدلیہ و عوام کے درمیان فاصلے کم کرنے میں مثبت پیش رفت کرے گا۔
وزیراعظم نے اپنے بیان کے آخر میں نئی قیادت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان وکلا برادری کے جائز مسائل کے حل، وکالت کے پیشے میں بہتری اور عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وکلا برادری احسن بھون کہا کہ
پڑھیں:
ماورائے عدالت قتل روکنے کیلئے پولیس کی موثر نگرانی ناگزیر : سپریم کورٹ
اسلام آباد(آئی این پی )سپریم کورٹ نے پولیس کی حراست میں موجود ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تشدد، غیر انسانی و توہین آمیز سلوک اور ذاتی وقار کی پامالی کسی صورت جائز نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پولیس کی حراست میں موجود ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کیخلاف 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ بعض اوقات پولیس کی جانب سے تشدد ماورائے عدالت قتل کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ وہ استثنی کے مفروضے کے تحت ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس عمل کو روکنے کیلئے پولیس فورس پر موثر اور خصوصی نگرانی ناگزیر ہے، زندگی کے حق کو سب سے اعلی انسانی حق قرار دیا گیا ہے، اور آئین ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ریاست ہر شہری کے حقِ زندگی کا تحفظ کرے، حراستی تشدد اور قتل کو روکے۔فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ غیر قانونی حراست، گرفتاری، تشدد، ماورائے عدالت قتل کیخلاف یہ آئینی ضمانتیں قانونی اصولوں کی اساس ہیں، غیر قانونی حراست اور تشدد کسی بھی صورت میں پسندیدہ ہیں نہ قابلِ جواز۔جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کا اصول ایک محفوظ اور منصفانہ معاشرے کو یقینی بنانا ہے، پولیس فورس آئین میں درج بنیادی حقوق کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کی پابند ہے، پولیس ہر شخص کی جان، آزادی اور وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جب کوئی سرکاری اہلکار قانون پر عمل کیے بغیر کسی شخص کو نقصان پہنچاتا ہے، تو اس سے شفاف ٹرائل کے حق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے، پولیس کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن گرفتاری آئین و قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی و قانونی تقاضوں کے برخلاف گرفتاری، غیر انسانی رویہ اپنانا، ظلم یا تشدد کرنا نہ صرف مجرمانہ فعل ہے، بلکہ یہ فعل مس کنڈکٹ میں بھی شمار ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ زریاب خان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور تشدد کے ذریعے درخواست گزاران نے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی، درخواست گزاران کا یہ عمل اختیارات کے غلط استعمال کے مترادف ہے، پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکالنے کی محکمانہ کارروائیاں ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔عدالت نے ملزمان کی سزائیں برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کردیں۔سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 کسی شخص کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرتا ہے، کوئی بھی گرفتار شخص گرفتاری کی وجوہات بتائے بغیر حراست میں نہیں رکھا جا سکتا، گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق انسان کی عزتِ نفس اور گھر کی پرائیویسی کی پامالی نہیں ہوسکتی۔عدالت عظمی نے یہ فیصلہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے 3 پولیس کانسٹیبلز کی اپیلوں پر جاری کیا، تینوں افراد پر زریاب خان نامی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھنے، اسے قتل کرنے کا الزام تھا۔نوکری سے برخاست کرنے کے محکمانہ کارروائی کے فیصلے کیخلاف پنجاب سروس ٹربیونل سے درخواست گزاروں نے رجوع کیا تھا، پنجاب سروس ٹربیونل نے انکی نوکری سے برخاست کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کیس سنا تھا۔