WE News:
2025-06-09@12:44:13 GMT

قدرت ناراض ہے

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

16 اپریل کی شام، پاک سیکریٹریٹ اسلام آباد میں روٹین کا کام جاری تھا۔ میں اور میری کولیگ مریم دفتر میں کافی کے کپ کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ ایسے میں گھٹا کا اٹھنا، تیز ہوا چلنا اور ہلکی بارش ہونا ایک خوشگوار سا وقفہ لگا۔ ہم دونوں مارے اشتیاق کے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک بارش تیز ہو گئی۔ پہلے کھڑکیاں بند کیں۔ پھر یوں لگا جیسے شیشے پر برسنے والے بڑے بڑے، بے رحم اولوں نے الٹی میٹم دے دیا ہو۔ ایک لمحے میں اندازہ ہو گیا کہ بارش نہیں، ژالہ باری ہے اور ساتھ نقصان بھی متوقع ہے۔ ہم نے فوراً کمرہ چھوڑا اور کوریڈور کی جانب بھاگے، جہاں دوسری طرف دفتر کے ملازمین ایک شیشے کے سامنے جمع تھے۔

ہم نے بھی ویڈیو بنانے کے لیے موبائل نکالا۔ اولے شدت سے گرتے رہے۔ آنکھوں کے سامنے گاڑیوں کی ونڈ اسکرینز، دفتر کی کھڑکیاں اور بیرونی شیشے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ بارش برسنے کی خوشی پہلے حیرت میں بدلی، پھر خاموشی میں اور پھر ایک عجیب سے دکھ میں ڈھل گئی۔

اسی دوران دفتر کی چائے کے برتن سمیٹتی ملازمہ سے میں نے کہا، ’بہت نقصان ہو گیا، گاڑیاں ٹوٹ گئیں، شیشے چکنا چور ہو گئے۔‘

وہ رُکی، میری طرف دیکھا، اور دُکھی لہجے میں بولی، ’میڈم! نقصان تو گندم کی فصل کا ہوا ہے، کھڑی فصل خراب ہو جائے گی۔‘

اُس کی بات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ واقعی، نقصان کی شدت اور نوعیت ہر طبقے کے لیے مختلف ہے۔ ایک شہری کے لیے گاڑی کی مرمت کا خرچ، اور ایک دیہاتی کے لیے ساری فصل کا تباہ ہو جانا۔ ژالہ باری مختصر تھی لیکن میرا فلیش بیک طویل ہوگیا۔

مجھے یاد ہے، بیس سال پہلے جب ہم مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرتے تھے، اساتذہ ہمیں مضمون لکھواتے تھے: ’موسمیاتی تبدیلی — افسانہ یا حقیقت؟‘

اُس وقت بیشتر طلباء اسے مغرب کی سازش اور بین الاقوامی اداروں کا واویلا سمجھتے تھے۔

میرا خیال ہے ہمارے خلاف سب سے بڑی سازش وہ اندرونی جہالت ہے جس سے ہم  پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ اُس وقت موسمیاتی تبدیلی کو سازش کہنے والے شاید آج بھی اسے صرف عذاب سے تعبیر کرتے ہوں گے۔

ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا،  لاکھوں افراد بے گھر ہوئے،  معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور آج میری فیس بک پوسٹ پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی دوست بشری مسعود نے لکھا ‘ شام کے 7 بجے ہیں اور حیدرآباد میں درجہ حرارت 46 ڈگری ہے جو کہ 49 محسوس ہو رہا ہے‘۔ کہیں شدید بارشیں، فلیش فلڈنگ تو کہیں قحط۔ درختوں کی کٹائی، زمین کی بنجر ہوتی حالت، اور پانی کی کمی۔

 یہ سب ایک مربوط موسمیاتی بحران ہے اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلسل بگڑ رہا ہے۔

کل کا ’مفروضہ‘  آج کی سب سے اہم حقیقت بن چکا ہے۔ مگر افسوس، ہم نے اِسے یا تو عذاب کہہ کر رد کر دیا، یا دعا مانگ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھی۔ ہمارے یاں عمل کا خانہ کیوں خالی ہے؟

 دین میں تدبیر کی بھی تلقین ہے، اس پر توجہ کیوں نہیں؟

اب تدبیر کی بات کرو تو ساری ذمہ داری حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نپٹنے کے لیے  سماجی شعور بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنے حکومتی اقدامات۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتی دھوئیں، گاڑیوں کی آلودگی، پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال—یہ سب ماحول کے توازن کو بگاڑتے ہیں۔ اور جب توازن بگڑتا ہے تو قدرت اپنا ردِ عمل دیتی ہے۔

 ہمیں تو فرد، معاشرہ اور ریاست، تینوں سطحوں پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہے تب کہیں بچاؤ ممکن ہے۔  یہ تو طے ہے کہ سیمینار، کانفرنسوں، یا ہیش ٹیگز سے موسمیاتی تبدیلی نہیں رک سکتی۔

جب تک ہمیں احساس نہ ہو کہ درخت لگانا اور سبزہ اگانا فیشن نہیں ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔

خدارا ! اپنے گھروں، گلیوں، دفاتر، اسکولوں اور خالی مقامات پر درخت لگائیں۔ درخت بارش کے نظام کو بحال کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ درخت لگانے کے ساتھ ہی زمین اور اس سے جُڑی ہوئی نعمتوں کے بے جا استعمال سے بھی گریز کریں۔ کھانا اتنا کھائیں جتنی ضرورت ہو، پانی اتنا استعمال کریں جتنی ضرورت ہو اور  گھر بھی اتنا بنائیں جتنی ضرورت ہو، باقی زمین سبزہ کے لیے چھوڑ دیں۔ زمین کو سانس لینے دیں۔

سیمنٹ کے جنگل اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے پھیلاؤ کو مل کر روکیں ، اب عمودی ہاؤسنگ کو فروغ دیں۔ اگر عمودی ہاؤسنگ سے دبئی، یورپ وغیرہ میں رہنے والوں کی شان نہیں گھٹی تو آپ کی بھی نہیں گھٹے گی۔

پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ کپڑے کے تھیلوں کو فروغ دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتی اداروں کو ماحولیاتی ضوابط کا سختی سے پابند بنائے تاکہ کاربن اخراج کم ہو اور ہوا صاف رہے۔

اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے اور کرنے کو لیکن کہیں سے تو شروع کریں۔

اگر ہم سمجھیں تو  ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے موسمیاتی واقعات دراصل وارننگ ہیں کہ نظام قدرت ہماری حرکتوں سے ناراض ہے۔

آسمان اور زمین دونوں کو ناراض کرکے جائیں گے کہاں؟ سوچا ہے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین فاطمہ

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کے لیے

پڑھیں:

تین سال پہلے کے نرخ اب؟

جس دن وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ’’باتصویر‘‘ کمی کا اعلان کیا اس سے اگلے دن ہم اخبارات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے کہ ’’لازم وملزوم‘‘ اس پر کیا بیان آئے گا؟

’’لازم وملزوم‘‘خیبر پختون خوا کے اخبارات کا وہ کام ہے جو معاون خصوصی برائے اطلاعات کو مستقل طورپر الاٹ کی جا چکی ہے یہ جگہ پہلے صفحے کے عین بیچوں بیچ دائیں طرف واقع ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ سرکاری جگہ میں معاون خصوصی کے ’’عہدوں‘‘ ڈگریوں سے مزین گل افشانی ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم ، صدر ، گورنر ،وزیراعلیٰ کے بیانات میں ناغہ ہوجائے لیکن ڈگریوں، عہدوں اور تصویر سے مزین اس شاعری میں ناغہ نہیں ہوسکتا ہے اوراس دن بھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن جو بیان آیا تھا اس نے ہمیں حیران پریشان ، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان کردیا تھا کہ ’’بجلی اورپٹرولیم کے نرخوں میں جس نے یہ کمی کی تھی وہ جیل میں پڑا ہے ‘‘

 ظاہرہے کہ یہ بہت بڑا انکشاف بلکہ کشاف الاکشاف تھا، بجلی اورپٹرولیم وغیرہ میں ’’جس ‘‘ نے کمی کی تھی وہ سال ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ، اس سے پہلے بھی اسلام آباد پر چڑھائیوں میں مصروف تھے یعنیکل ملا کر اگر وہ نرخوں میں ’’کمی‘‘ کرچکے تھے تو اسے تین سال کا عرصہ تو یقیناً گزرا ہے تو یہ کمی اب تک کہاں تھی ؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی ، ہمارا خیال ہے یہ ’’کمی ‘‘ کسی خرگوش کی پیٹھ پر سوار کی گئی تھی اگر کچھوے کی پیٹھ پر ہوتی تو پھر بھی سال چھ مہینے میں اسے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن سلسلہ مواصلات یقیناً ’’خرگوش‘‘ تھا جو کہیں کسی درخت کے سائے میں یاکسی اے سی کمرے میں سو گیا ہوگا ۔

اس پر ہمیں وہ شخص یاد آیا جس کا ذکر ہم نے کہیں کیا بھی ہے ۔ وہ پڑوس کے گاؤں سے ہمارے پاس اپنی شاعری سنانے آتا تھا کیوں کہ اس کاکہنا تھا کہ صرف ہم ہی اس کی شاعری کو سمجھتے ہیں ، ایک بات اس نے یہ بتائی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر ایک نظم لکھی تھی جس کے عوض پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانچ لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی لیکن میں نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری نظر میں بینظیر کی قیمت صرف پانچ لاکھ روپے کی ہے اورمیری نظر میں اس کی قیمت قارون کے سارے خزانوں سے بھی زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب ہم نے جان چھڑا نے کے لیے کہا کہ ہم ایک جنازے میں جارہے ہیں، دو نوجوان بھائی ایک روڈایکیسڈنٹ میں مرے ہیں اوریہ بات سچ تھی ۔ تو اس نے کہا اگر کوئی جیب میں ’’پریزیڈنٹ پن‘‘ رکھے تو اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔لیکن اس کا تیسرا نظریہ یا دعویٰ ہم نے آپ کو نہیں بتایا ہے ، اس کا دعویٰ تھا کہ رحمان بابا کادیوان اصل میں میرا دیوان ہے ۔میں نے جب رحمان بابا اوراس کے زمانے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس جنم سے پہلے رحمان بابا کے زمانے میں بھی پیدا ہوا تھا بلکہ رحمان بابا میرا شاگرد ہوا کرتا اورمجھ پر جب بھی ’’آمد‘‘ طاری ہوجاتی تھی،رحمان بابا اسے لکھنے لگتا تھا ۔پھر ایک خاتون کے عشق میں جب اس کے بھائیوں نے مجھے مرتبہ شہادت پر پہنچایا تو میرا کلام رحمان بابا کے پاس رہ گیا ۔ لیکن اس نے خود یہ خیانت نہیں کی تھی بلکہ جب وہ فوت ہوگیا تھا اوراس کے سامان میں چند تصویر بتاں کے ساتھ یہ کلام بھی نکل آیا تو لوگوں میں اس کا یہ کلام مشہورہوگیا۔دراصل کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں اپنے کلام میں تخلص نہیں استعمال کرتا تھا کیوں کہ ہم دونوں کا نام رحمان تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ یہ بجلی وجلی کے نرخوں کاچکر بھی کچھ ایسا ہی ہے کام بلکہ کارنامہ اس کا تھاجو جیل میں ہے اوربیچارا دیسی گھی میں دیسی مرغ کھانے پر مجبور ہے ۔خیر اس کا بدلہ تو ہم لے کر رہیں گے اوران مینڈیٹ چوروں کو اس سے ڈبل عرصہ دیسی مر غ اوردیسی گھی کھلائیں گے جو انھوں نے ’’بانی‘‘ کو کھلائے ہیں ۔

اوراس بیان پر ہمیں پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ ہمارے معاون خصوصی برائے اطلاعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے اورجو بھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اوریہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ صوبہ خیر پخیرکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے بیانات ’’سچ‘‘ کاسرچشمہ ہوتے ہیں ، خاص طورپر وہ جو کچھ پنجاب اوروفاق کی مینڈیٹ چورحکومتوں کے بارے میں بولتے ہیں ۔

  ویسے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ان کے بیانات پڑھ پڑھ کر اوراس میں حد سے زیادہ سچائی پاکر لوگ الٹیاں کرنے لگ گئے ہیں کیوں کہ ملاوٹ کے عادی معدے اتنی خالص سچائیاں ہضم نہیں کرپارہے ہیں

سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہیں نہیں

متعلقہ مضامین

  • کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ، عمارتوں کو نقصان پہنچا
  • خوفناک ،آتشزدگی، 3 فیکٹریاں جل گئیں، کتنا جانی و مالی نقصان ؟ جانئے
  • کراچی: لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی فیکٹری میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا
  • دوسرے بڑے شہر پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ، بڑا نقصان ہو گیا
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا