16 اپریل کی شام، پاک سیکریٹریٹ اسلام آباد میں روٹین کا کام جاری تھا۔ میں اور میری کولیگ مریم دفتر میں کافی کے کپ کے ساتھ کام میں مصروف تھے۔ ایسے میں گھٹا کا اٹھنا، تیز ہوا چلنا اور ہلکی بارش ہونا ایک خوشگوار سا وقفہ لگا۔ ہم دونوں مارے اشتیاق کے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگے۔
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اچانک بارش تیز ہو گئی۔ پہلے کھڑکیاں بند کیں۔ پھر یوں لگا جیسے شیشے پر برسنے والے بڑے بڑے، بے رحم اولوں نے الٹی میٹم دے دیا ہو۔ ایک لمحے میں اندازہ ہو گیا کہ بارش نہیں، ژالہ باری ہے اور ساتھ نقصان بھی متوقع ہے۔ ہم نے فوراً کمرہ چھوڑا اور کوریڈور کی جانب بھاگے، جہاں دوسری طرف دفتر کے ملازمین ایک شیشے کے سامنے جمع تھے۔
ہم نے بھی ویڈیو بنانے کے لیے موبائل نکالا۔ اولے شدت سے گرتے رہے۔ آنکھوں کے سامنے گاڑیوں کی ونڈ اسکرینز، دفتر کی کھڑکیاں اور بیرونی شیشے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ بارش برسنے کی خوشی پہلے حیرت میں بدلی، پھر خاموشی میں اور پھر ایک عجیب سے دکھ میں ڈھل گئی۔
اسی دوران دفتر کی چائے کے برتن سمیٹتی ملازمہ سے میں نے کہا، ’بہت نقصان ہو گیا، گاڑیاں ٹوٹ گئیں، شیشے چکنا چور ہو گئے۔‘
وہ رُکی، میری طرف دیکھا، اور دُکھی لہجے میں بولی، ’میڈم! نقصان تو گندم کی فصل کا ہوا ہے، کھڑی فصل خراب ہو جائے گی۔‘
اُس کی بات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ واقعی، نقصان کی شدت اور نوعیت ہر طبقے کے لیے مختلف ہے۔ ایک شہری کے لیے گاڑی کی مرمت کا خرچ، اور ایک دیہاتی کے لیے ساری فصل کا تباہ ہو جانا۔ ژالہ باری مختصر تھی لیکن میرا فلیش بیک طویل ہوگیا۔
مجھے یاد ہے، بیس سال پہلے جب ہم مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرتے تھے، اساتذہ ہمیں مضمون لکھواتے تھے: ’موسمیاتی تبدیلی — افسانہ یا حقیقت؟‘
اُس وقت بیشتر طلباء اسے مغرب کی سازش اور بین الاقوامی اداروں کا واویلا سمجھتے تھے۔
میرا خیال ہے ہمارے خلاف سب سے بڑی سازش وہ اندرونی جہالت ہے جس سے ہم پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ اُس وقت موسمیاتی تبدیلی کو سازش کہنے والے شاید آج بھی اسے صرف عذاب سے تعبیر کرتے ہوں گے۔
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ جب 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور آج میری فیس بک پوسٹ پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی دوست بشری مسعود نے لکھا ‘ شام کے 7 بجے ہیں اور حیدرآباد میں درجہ حرارت 46 ڈگری ہے جو کہ 49 محسوس ہو رہا ہے‘۔ کہیں شدید بارشیں، فلیش فلڈنگ تو کہیں قحط۔ درختوں کی کٹائی، زمین کی بنجر ہوتی حالت، اور پانی کی کمی۔
یہ سب ایک مربوط موسمیاتی بحران ہے اور زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلسل بگڑ رہا ہے۔
کل کا ’مفروضہ‘ آج کی سب سے اہم حقیقت بن چکا ہے۔ مگر افسوس، ہم نے اِسے یا تو عذاب کہہ کر رد کر دیا، یا دعا مانگ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھی۔ ہمارے یاں عمل کا خانہ کیوں خالی ہے؟
دین میں تدبیر کی بھی تلقین ہے، اس پر توجہ کیوں نہیں؟
اب تدبیر کی بات کرو تو ساری ذمہ داری حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نپٹنے کے لیے سماجی شعور بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنے حکومتی اقدامات۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتی دھوئیں، گاڑیوں کی آلودگی، پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال—یہ سب ماحول کے توازن کو بگاڑتے ہیں۔ اور جب توازن بگڑتا ہے تو قدرت اپنا ردِ عمل دیتی ہے۔
ہمیں تو فرد، معاشرہ اور ریاست، تینوں سطحوں پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہے تب کہیں بچاؤ ممکن ہے۔ یہ تو طے ہے کہ سیمینار، کانفرنسوں، یا ہیش ٹیگز سے موسمیاتی تبدیلی نہیں رک سکتی۔
جب تک ہمیں احساس نہ ہو کہ درخت لگانا اور سبزہ اگانا فیشن نہیں ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔
خدارا ! اپنے گھروں، گلیوں، دفاتر، اسکولوں اور خالی مقامات پر درخت لگائیں۔ درخت بارش کے نظام کو بحال کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ درخت لگانے کے ساتھ ہی زمین اور اس سے جُڑی ہوئی نعمتوں کے بے جا استعمال سے بھی گریز کریں۔ کھانا اتنا کھائیں جتنی ضرورت ہو، پانی اتنا استعمال کریں جتنی ضرورت ہو اور گھر بھی اتنا بنائیں جتنی ضرورت ہو، باقی زمین سبزہ کے لیے چھوڑ دیں۔ زمین کو سانس لینے دیں۔
سیمنٹ کے جنگل اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے پھیلاؤ کو مل کر روکیں ، اب عمودی ہاؤسنگ کو فروغ دیں۔ اگر عمودی ہاؤسنگ سے دبئی، یورپ وغیرہ میں رہنے والوں کی شان نہیں گھٹی تو آپ کی بھی نہیں گھٹے گی۔
پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ کپڑے کے تھیلوں کو فروغ دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ صنعتی اداروں کو ماحولیاتی ضوابط کا سختی سے پابند بنائے تاکہ کاربن اخراج کم ہو اور ہوا صاف رہے۔
اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے اور کرنے کو لیکن کہیں سے تو شروع کریں۔
اگر ہم سمجھیں تو ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے موسمیاتی واقعات دراصل وارننگ ہیں کہ نظام قدرت ہماری حرکتوں سے ناراض ہے۔
آسمان اور زمین دونوں کو ناراض کرکے جائیں گے کہاں؟ سوچا ہے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کے لیے
پڑھیں:
آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2025ء) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے، پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کریں گے۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ روز امریکا میں پاکستانی سفارت خانہ میں عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی کارپوریٹ لیڈرز سے اہم ملاقات میں کیا۔ وزیر خزانہ نے انہیں ملک میں کلی معیشت کے استحکام اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں میں اصلاحات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے دستیاب مواقع اور حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا ۔(جاری ہے)
وزیرخزانہ نے کہا کہ نجی شعبہ معیشت کا انجن ہے ، ملکی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں نجی شعبے کا کردار اہمیت کا حامل ہے، نجی شعبے کو اس ضمن میں فعال کردار ادا کرناچاہیے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لئے وجودی خطرات ہیں ، آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا کہ 250 ملین کی ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان وسطی ایشیا، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے حوالے گیٹ وے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو ملک کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس موقع پر جاز سی ای او عامر ابراہیم نے حکومتی معاشی پالیسیوں اور معیشت کی استعداد پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ ملاقات کے دوران معروف امریکی کمپنی فلپ مورس کی جانب سے ملک میں مزید سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیاگیا ۔ جنوبی ایشیا کے لئے عالمی بینک کے علاقائی نائب صدر مارٹن ریزر نے معاشی استحکام کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کی تعریف کی اور اس حوالے سے پاکستان پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے لئے چالیس ارب کا دس سالہ پروگرام عالمی بنک کی جانب سے ملک سے وابستگی کے عزم کا عکاس ہے۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آئی ایم ایف بہادر بیجانی نے حکومت کی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی عمل کی تعریف کی۔