لوٹن، رابعہ اسکول کے سابق چیئرمین پر آزاد اسکول چلانے پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
لوٹن میں رابعہ سکول فار بوائز اینڈ گرلز کے سابق چیئرمین طفر اقبال خان کو آزاد اسکولوں کو چلانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
یہ ادارہ، جو صنف کے لحاظ سے الگ تعلیم فراہم کرتا تھا، 2021 میں آفسٹڈ کے مقرر کردہ معیارات کو پورا کرنے میں مسلسل ناکام رہنے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔
1996 میں اسلامی تعلیم فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا رابعہ اسکول انسپکٹرز کے مطابق اس اسکول میں برطانوی اقدار کو مجروح کیا گیا پایا گیا۔
سیکرٹری ایجوکیشن بریجٹ فلپسن نے فیصلہ دیا ہے کہ ظفر اقبال خان کو کسی بھی آزاد اسکول کے انتظام سے بشمول مفت اسکولوں، اکیڈمیوں اور گورنر بننے سے روک دیا جانا چاہیے۔
محکمہ تعلیم کی سمری کے مطابق مسٹر خان سیکرٹری آف اسٹیٹ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں کہ اسکول آزاد اسکول کے معیارات پر عمل کرے۔
آفسٹڈ نے 2008 اور 2021 کے درمیان اسکول کے کم از کم 15 معائنے کیے تھے، ایک دورے کے بعد تعلیم کے نگران ادارے نے رپورٹ کیا کہ اساتذہ طلباء کی متنوع ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار وسائل اور مہارتوں سے ناکافی طور پر لیس تھے۔
اس کے علاوہ چیریٹی کمیشن نے 2016-2017 کے دوران رابعہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کی تحقیقات کی، اسکول کو مرد اور خواتین عملے کو جسمانی رکاوٹ کے ساتھ الگ کرنے کے اس کے عمل پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
آفسٹڈ نے یہ بھی دریافت کیا کہ طالبات کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم میں مشغول ہونے کے مساوی مواقع فراہم نہیں کیے گئے تھے بلکہ رپورٹس کے مطابق اس اسکول میں لڑکیوں کو سلائی کڑھائی سکھانے پر ہی توجہ تھی۔
اسکول میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 60 بچوں کو داخل کرنے کے لیے رجسٹر کیا گیا تھا۔ 2021 میں اس کے بند ہونے سے پہلے، آفسٹڈ نے اطلاع دی کہ صرف 25 طلباء شرکت کر رہے تھے، سال 1 یا سال 5 میں کوئی اندراج نہیں تھا۔
مسٹر خان کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل جمع کرانے کے لیے تین ماہ کا وقت ہے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آزاد اسکول اسکول کے کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا اعلیٰ سطحی کثیر الجماعتی وفد لندن پہنچ گیا
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 9 رکنی اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔
وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔
وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک، چیئر پرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئر پرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان، سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور سید فیصل علی سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے برخلاف پاکستان کے 24 کروڑ افراد کے پانی کے حق پر حملہ کر رہا ہے،
وفد میں 2 سابق سیکریٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔
لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد کے اراکین فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی لیڈر شپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر شرائط پر نہیں، امن کا حصول مذاکرات اور سفارت کاری سے ہی ممکن ہے
اپنے دورے کے دوران وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا، وفد باور کروائے گا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔
وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔
سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کی مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔