پیوٹن کا دوٹوک مؤقف: اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل فلسطینی ریاست کا قیام ہے
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل فلسطین تنازع کا "واحد اور پائیدار حل" قرار دیا ہے۔ یہ بیان انہوں نے ماسکو میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے ساتھ ملاقات کے دوران دیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں دو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدوں پر دستخط بھی کیے گئے۔
قطری امیر نے بھی فلسطینی ریاست کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ "آزاد فلسطینی ریاست کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کا خواب ممکن نہیں۔"
اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں نے شام کو ایک خودمختار، متحد ریاست بنانے کی مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا۔
یاد رہے کہ روسی صدر پہلے بھی غزہ جنگ بندی کے دوران رہائی پانے والے یرغمالیوں سے ملاقات میں حماس کی حکمت عملی کی تعریف کر چکے ہیں، جس پر عالمی سطح پر مختلف ردعمل سامنے آ چکے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست
پڑھیں:
فرانس کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ فرانسیسی عوام مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ یورپی و بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا جائے کہ امن ممکن ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فرانس نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی سمت اہم پیش رفت کرتے ہوئے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اس فیصلے کا باضابطہ اعلان ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کرنے کا عندیہ دے دیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے نام ایک خط میں جو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا فرانسیسی صدر نے واضح کیا کہ پائیدار اور منصفانہ امن کے حصول کے لیے ریاستِ فلسطین کا قیام ناگزیر ہے۔ میکرون کا کہنا تھا کہ فرانس اس تاریخی اور اصولی مؤقف کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ صدر میکرون نے کہا کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ کو فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے عوام کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا، غزہ کو محفوظ بنانا اور اس کی تعمیرِ نو کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام ہی خطے کے دیرپا امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ فرانسیسی عوام مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ یورپی و بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر یہ ثابت کیا جائے کہ امن ممکن ہے۔