یمن، تیل کی بندرگاہ پر امریکی حملوں میں 74 افراد ہلاک ہوئے، حوثی باغی
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
یمن کے حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ کہ تیل کی بندرگاہ پر امریکی فضائی حملوں میں 74 افراد ہلاک اور 171 دیگر زخمی ہو گئے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا میں جمعے کو حوثی باغیوں کی وزارت صحت کی جانب سے جاری ہونے والی تعداد رات بھر کے حملوں سے ہونے والی تباہی کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ حملہ 15 مارچ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں شروع ہونے والی امریکی فضائی حملے کی مہم کا سب سے مہلک حملہ ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے حملوں میں شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
اس حملے میں لوگوں کی ہلاکت کا اندازہ لگانا ناقابل یقین حد تک مشکل رہا ہے کیونکہ سینٹرل کمانڈ نے ابھی تک اس مہم، اس کے مخصوص اہداف اور اس میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے، اس بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی ہیں۔
دریں اثنا حوثی باغی بھی جن علاقوں پر حملے ہوئے ہیں، وہاں کسی کو جانے نہیں دیتے اور نہ ہی ان حملوں کے حوالے سے کوئی معلومات شائع کی جاتی ہیں، جن میں ممکنہ طور پر فوجی اور سکیورٹی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن تیل کی بندرگاہ لیکن راس عیسیٰ پر حملے، جس سے رات کے وقت آسمان پر آگ کے بلند شعلے دیکھے گئے، امریکی مہم میں شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ جبکہ حوثیوں نے فوری طور پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر جاری کیں۔
ایک بیان میں سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ ’امریکی افواج نے ایران کے حمایت یافتہ حوثی دہشت گردوں کے لیے ایندھن کے اس ذریعے کو ختم کرنے اور انہیں اس غیرقانونی آمدنی سے محروم کرنے کے لیے کارروائی کی جس نے 10 برس سے زیادہ عرصے سے پورے خطے کو دہشت زدہ کرنے کے لیے حوثیوں کی کوششوں کو فنڈز فراہم کیے ہیں۔ اس حملے کا مقصد یمن کے لوگوں کو نقصان پہنچانا نہیں تھا، جو بجا طور پر حوثیوں کے غلامی کے طوق کو اتار کر امن سے رہنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بعدازاں جمعے کو اسرائیل کی طرف ایک میزائل داغا جسے مار گرایا گیا۔
خیال رہے کہ یمن کی جنگ میں بہت سے بین الاقوامی کھلاڑی شامل ہو چکے ہیں کیونکہ امریکہ نے الزام عائد کیا کہ ایک چینی سیٹلائٹ کمپنی حوثی حملوں کی ’براہ راست معاونت‘ کر رہی ہے، تاہم چین نے جمعے کو اس حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
23 اپریل کو ایل او سی سرجیور میں دو دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔
اسلام آباد:کنٹرول لائن پر دراندازی کا ایک اور بھارتی جھوٹ بے نقاب ہوگیا، 23 اپریل کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں دو مبینہ دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔
ذرائع کے مطابق جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے، وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کردہ تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں جس واقعے میں دو افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔
ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پُرامن شہری تھے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی تھی، ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہے کہ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے، یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی، مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں، اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں، اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔
اسی طرح دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں، اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا، ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پُرامن شہری تھے، ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔