وقف قانون کے حوالے سے ہمیں مجبور ہوکر عدالت کا راستہ اختیار کرنا پڑا، مولانا ارشد مدنی
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ نے کہا کہ اس سچائی سے کون انکار کرسکتا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے، لیکن اگر اس حقوق کا استعمال غلط مقاصد کیلئے کیا جائے تو جمہوری طریقے سے اسکی مخالفت ضروری ہوجاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف داخل عرضی پر کل مسلسل دوسرے دن سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ وقف قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور نئے قانون کے تحت بورڈ اور وقف کونسل میں کوئی تقرری نہیں کی جائے گی۔ وہیں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا سخت تبصرہ ان کے رخ کی تصدیق کرتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں نئے قانون کے جن نکات پر سنگین اعتراض تھا اور جو وقف املاک کے لئے انتہائی تباہ کن ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ وکلاء کی پوری بحث انہیں نکات پر مرکوز رہی۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی طور پر چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے جن موضوعات پر سخت تبصرہ کیا، وہ نہ صرف اہم ہیں بلکہ ہمارے اس رخ کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ہم نئے قانون کی مخالفت کرنے میں پوری طرح حق پر ہیں۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ان وکلاء کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے وقف اور نئے وقف قوانین سے متعلق عدالت میں پوری تیاری کے ساتھ ٹھوس اور منطقی بحث کی، خصوصی طور پر ملک کے نامور وکیل کپل سبل نے جو بحث کی، وہ تاریخی تھی۔ انہوں نے ساتھ ہی ہم ملک کے ان تمام انصاف پسند لوگوں، تنظیموں اور لیڈران کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو نہ صرف وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا سید ارشد مدنی نے مزید کہا کہ اس سچائی سے کون انکار کرسکتا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے، لیکن اگر اس حقوق کا استعمال منفی طور پر اور غلط مقاصد کے لئے کیا جائے تو جمہوری طریقے سے اس کی مخالفت ضروری ہو جاتی ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ نئے قانون کی جن دفعات پر چیف جسٹس نے فکرمندی کا اظہار کیا، ہم شروعات سے ہی ان کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) کے ساتھ میٹنگ میں بھی ہم نے ان دفعات سے متعلق گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دفعات ہماری وقف املاک کے لئے بہت ہی تباہ کن ہیں، لیکن افسوس کہ ہماری بات نہیں سنی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہماری بات سنی گئی ہوتی تو ہمیں انصاف کے لئے عدالت کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ جب انصاف کے تمام راستے بند کردیئے گئے تو ہمیں مجبور ہوکر قانونی لڑائی کا راستہ اپنانا پڑا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جمعیۃ علماء ہند کے مولانا ارشد مدنی انہوں نے کہا کہ کی مخالفت قانون کے کے لئے
پڑھیں:
غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
اپنے ایک جاری بیان میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انقرہ میں وزارت خارجہ کی عمارت میں اپنے نارویجین ہم منصب "سپین بارت ایدہ" کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غزہ میں انسانی صورت حال کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 50 روز سے انسانی امدادکا داخلہ بند ہے۔ یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ اسی سلسلے میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی کی سنگین معاشی اور انسانی صورت حال سے خبردار کیا۔ اس ادارے نے اعلان کیا کہ غزہ کی مالی امداد روک کر اسرائیل نے منظم طریقے سے یہاں کے مکینوں کو تباہ کرنے کی ٹارگٹڈ پالیسی اپنائی ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے صیہونی رژیم نے یہاں کسی بھی قسم کی امداد اور رقوم کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ مالی محاصرہ غزہ میں شدید اقتصادی بحران پیدا کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹ سے مہنگی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ خریدیں جو کہ اُن کی مالی حالت کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے اس ادارے نے مزید کہا کہ یہ اقتصادی دباؤ صرف غزہ کے اقتصادی ڈھانچے پر ہی حملہ نہیں بلکہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مرنے اور بتدریج تباہ کرنے کی صیہونی پالیسیوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس ادارے نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔