ایران کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا ایران بالواسطہ مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، ایرانی نائب وزیر خارجہ

العربیہ نیوز کے مطابق ایک سینئر ایرانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ ہفتے امریکا سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ اپنی یورینیم کی افزودگی پر کچھ حدود کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے اس بات کی واٹر ٹائٹ گارنٹی درکار ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ جوہری معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

ایران اور امریکا عمان میں مذاکرات کے پہلے دور کے ایک ہفتے بعد ہفتے کے روز روم میں مذاکرات کا دوسرا دور کرنے والے ہیں جسے دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے۔

ٹرمپ جنہوں نے فروری سے ایران پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ جوہری معاملے پر امریکا سے بات چیت کرے۔ ٹرمپ اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔

بعد ازاں ایراان نے اپنے جوہری پروگرام پر سنہ 2015 کے معاہدے کی حدود سے مسلسل تجاوز کیا جو ایٹم بم تیار کرنا مشکل بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم

سابق امریکی صدر جو بائیڈن جن کی انتظامیہ نے سنہ 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، تہران کی اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ اس سے دستبردار نہیں ہوگی۔

تہران نے مذاکرات کے لیے رجوع کیا ہے لیکن اس کو اس بات پر شبہ ہے کہ ٹرمپ معاہدہ کرکے اس سے دوبارہ نہ پھر جائیں۔

ٹرمپ نے بار بار دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو بند نہ کیا تو وہ ایران پر بمباری کرے گا۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ پروگرام پرامن ہے۔

اگرچہ ایران اور امریکا دونوں نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری پر عمل پیرا ہیں لیکن ان کے مابین تنازع 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے۔

ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایران کی مذاکراتی پوزیشن کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای جوہری پروگرام کو ملک کی ریڈ لائن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ایران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کے لیے اپنے سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح سے کم کرنے پر راضی نہیں ہو گا جو اس نے سنہ 2015 کے معاہدے میں طے کیا تھا جسے ٹرمپ نے ترک کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر بھی بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی جوہری معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے۔

مزید پڑھیں: مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان

ایران نے عمان میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں سمجھ لیا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ ایران تمام جوہری سرگرمیاں بند کرے اور یہ ایران اور امریکا کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے مشترکہ بنیاد ہو سکتی ہے۔

ایران نے جمعے کے روز کہا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے تک پہنچنا اس صورت میں ممکن ہے اگر وہ ارادے کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے۔

اعلیٰ امریکی مذاکرات کار اسٹیو وٹ کوف نے منگل کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایران کو واشنگٹن کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی جوہری افزودگی کو روکنا اور ختم کرنا ہوگا۔

ایران نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے جسے وہ اس عمل میں واحد قابل قبول ادارے کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اس کا جوہری کام پرامن ہے۔

عباس عراقچی نے امریکیوں سے کہا تھا کہ اس تعاون کے بدلے میں امریکا کو ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر سے پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ایران ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایران ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات ایران اور امریکا جوہری معاہدے سے مذاکرات کا یورینیم کی سنہ 2015 کے کہ ایران ایران نے ہے کہ وہ بات چیت اس بات کہا کہ نے کہا کے لیے

پڑھیں:

ایران کے جوہری منصوبے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے، فیصل بن فرحان

سرگئی لاروف کے ساتھ اپنی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہماری اولین ترجیح غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے ناجائز اور وحشتناک قتل عام کو رکوانا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان" نے کہا کہ ریاض، ایران کے جوہری پروگرام کو سفارتی طریقے سے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ فیصل بن فرحان نے ان خیالات کا اظہار اپنے روسی ہم منصب "سرگئی لاروف" سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ یہ ملاقات ماسکو میں انجام پائی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم علاقائی مسائل کے حل کے لئے بات چیت اور سفارتی کوششوں کو پہلی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ تیز رفتار پیش رفت کے لیے زیادہ سے زیادہ تعاون اور تعمیری بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے مسئلہ فلسطین پر روس کے موقف کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ فلسطین اور ایران کے جوہری پروگرام میں روس کے متاثر کُن کردار پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہم 1967ء کی حدود کے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امن ہی واحد اسٹریٹجک حل ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں فیصل بن فرحان نے غزہ کی پٹی میں فوری، جامع اور مستقل جنگ بندی کو فلسطینی ریاست کے قیام کا پیش خیمہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری اولین ترجیح غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے ناجائز اور وحشتناک قتل عام کو رکوانا ہے۔ ہم فلسطین-اسرائیل تنازعہ کے حتمی حل تک پہنچنے کے لئے امریکی صدر کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایران جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرسکتا ہے، ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس و اخراجات سے متعلق بگ بیوٹی فل بل پر دستخط کر دیئے ، غزہ معاہدے کیلئے پرامید
  • سکیورٹی خدشات کے پیش نظر عالمی جوہری ادارے کے معائنہ کار ایران سے واپس چلے گئے
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے پر بڑی پیش رفت
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان ڈیڈلائن سے ایک ہفتہ قبل تجارتی معاہدے پر مفاہمت طے پاگئی
  • عالمی جوہری ایجنسی نے اپنے معائنہ کاروں کو ایران سے نکال لیا
  • ہم نے امریکا کی طاقت کو بحال کیا، اب ہمارے بارڈرز پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران کے جوہری منصوبے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے، فیصل بن فرحان
  • کئی ممالک ابراہم معاہدے کا حصہ بننے والے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • امریکا کی جانب سے ایران پر نئی پابندیاں، جنگ بندی کے بعد پہلا قدم