ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
ایران کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا ایران بالواسطہ مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، ایرانی نائب وزیر خارجہ
العربیہ نیوز کے مطابق ایک سینئر ایرانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ ہفتے امریکا سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ اپنی یورینیم کی افزودگی پر کچھ حدود کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے اس بات کی واٹر ٹائٹ گارنٹی درکار ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ جوہری معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ایران اور امریکا عمان میں مذاکرات کے پہلے دور کے ایک ہفتے بعد ہفتے کے روز روم میں مذاکرات کا دوسرا دور کرنے والے ہیں جسے دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے۔
ٹرمپ جنہوں نے فروری سے ایران پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ جوہری معاملے پر امریکا سے بات چیت کرے۔ ٹرمپ اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
بعد ازاں ایراان نے اپنے جوہری پروگرام پر سنہ 2015 کے معاہدے کی حدود سے مسلسل تجاوز کیا جو ایٹم بم تیار کرنا مشکل بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم
سابق امریکی صدر جو بائیڈن جن کی انتظامیہ نے سنہ 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، تہران کی اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ اس سے دستبردار نہیں ہوگی۔
تہران نے مذاکرات کے لیے رجوع کیا ہے لیکن اس کو اس بات پر شبہ ہے کہ ٹرمپ معاہدہ کرکے اس سے دوبارہ نہ پھر جائیں۔
ٹرمپ نے بار بار دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو بند نہ کیا تو وہ ایران پر بمباری کرے گا۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ پروگرام پرامن ہے۔
اگرچہ ایران اور امریکا دونوں نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری پر عمل پیرا ہیں لیکن ان کے مابین تنازع 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے۔
ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایران کی مذاکراتی پوزیشن کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای جوہری پروگرام کو ملک کی ریڈ لائن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کے لیے اپنے سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح سے کم کرنے پر راضی نہیں ہو گا جو اس نے سنہ 2015 کے معاہدے میں طے کیا تھا جسے ٹرمپ نے ترک کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر بھی بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی جوہری معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے۔
مزید پڑھیں: مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان
ایران نے عمان میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں سمجھ لیا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ ایران تمام جوہری سرگرمیاں بند کرے اور یہ ایران اور امریکا کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے مشترکہ بنیاد ہو سکتی ہے۔
ایران نے جمعے کے روز کہا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے تک پہنچنا اس صورت میں ممکن ہے اگر وہ ارادے کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے۔
اعلیٰ امریکی مذاکرات کار اسٹیو وٹ کوف نے منگل کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایران کو واشنگٹن کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی جوہری افزودگی کو روکنا اور ختم کرنا ہوگا۔
ایران نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے جسے وہ اس عمل میں واحد قابل قبول ادارے کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اس کا جوہری کام پرامن ہے۔
عباس عراقچی نے امریکیوں سے کہا تھا کہ اس تعاون کے بدلے میں امریکا کو ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر سے پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایران ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایران ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات ایران اور امریکا جوہری معاہدے سے مذاکرات کا یورینیم کی سنہ 2015 کے کہ ایران ایران نے ہے کہ وہ بات چیت اس بات کہا کہ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز
نیویارک:امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔
وائس آف امریکا کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔
1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی نجی آپریٹرز کی نااہلی کے شکار حج سے محروم ہزاروں عازمین کیلئے امید کی کرن جاگ اُٹھی علیمہ خان کاعدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر اظہار تشویش ، چیف جسٹس سے براہِ راست ملاقات کی خواہش پہلگام حملہ: بھارت کے فالس فلیگ بیانے کا پردہ چاک مستونگ: پولیو ٹیم پر حملہ، سکیورٹی پر مامور 2 لیویز اہلکار شہید وزیراعظم نے حکومتی کارکردگی کے نظام میں بہتری کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی امریکی کانگریس مین جیک برگمین کا عمران خان کی رہائی کا مطالبہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم