بھارتی اداکار کے پیچھے کتے پڑ گئے
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
ممبئی کے پوش علاقے وورلی میں حال ہی میں ایک دلچسپ منظر دیکھنے کو ملا جب نوجوان بالی وڈ اداکار ویر پہاڑیا کو اپنی قیمتی سرخ رنگ کی ایسٹن مارٹن ڈی بی 11کار چلاتے ہوئے ایک آوارہ کتے نے گھیر لیا۔
یہ ویڈیو نہ صرف وائرل ہوگئی بلکہ ویر کو ایک بار پھر انٹرنیٹ کا ”میم میٹیریل“ بھی بنا گئی۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ویر پہاڑیا، جو حال ہی میں اکشے کمار کے ساتھ فلم ”اسکائی فورس“ سے بالی وڈ میں قدم رکھ چکے ہیں، اپنی 3.
اداکار نے گاڑی کی رفتار کم کی تاکہ کتا خود ہی ہٹ جائے، مگر الٹا وہ گاڑی کے پیچھے بھاگنے اور مسلسل بھونکنے لگا۔
شاہ رخ کی بہن شہناز، شاہ رخ سے بھی آگے، لیکن ایک حادثے نے زندگی بدل دی کتے کی ضد اور رفتار ایسی تھی کہ اس نے ویر کو کافی دیر تک پریشان رکھا۔ جیسے ہی اداکار کو موقع ملا، انہوں نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی، مگر کتا پیچھا کرنے سے باز نہ آیا اور گاڑی کے ساتھ دوڑتا رہا۔
یہ سارا منظر نہ صرف ویر کے لیے ایک غیر متوقع واقعہ تھا بلکہ دیکھنے والوں کے لیے بے حد تفریحی بھی ثابت ہوا۔ سوشل میڈیا صارفین اس ویڈیو کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو کے تبصرے بھی خوب دلچسپ رہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’مشہور شخصیات کو بھی عام آدمی کی طرح چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
جبکہ ایک اور نے ہنستے ہوئے کہا، ’کتے کا بھی اپنا بھرم ہے!‘ کسی نے تو یہ بھی کہہ دیا،’ہو سکتا ہے کتا ویر کے“لنگڑی ڈانس“ کا فین ہو!‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ویر پہاڑیا سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہوں۔ رواں سال کے آغاز میں فلم اسکائی فورس کے گانے ”رنگ“ میں ان کے انوکھے ڈانس موو نے بھی میمز کی دنیا میں دھوم مچائی تھی۔ کچھ نے ان کے انداز کو پسند کیا، تو کچھ نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم ویر نے ہر بار خود پر ہونے والی ٹرولنگ کو خوش دلی سے قبول کیا۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھاکہ، ’میرا ڈانس ٹرول ہوا، لیکن اسی کے بعد میری سوشل میڈیا انگیجمنٹ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ لوگ مجھے جاننے لگے اور نئے پروجیکٹس کے دروازے کھل گئے۔ تو جو لوگ ٹرول کر رہے ہیں، ان سے صرف اتنا کہوں گا—پلیز اور ٹرول کریں تاکہ مجھے اور شادیوں کے شوز ملیں اور میں زیادہ کمائی کر سکوں۔‘
چاہے وہ وائرل ڈانس ہو یا آوارہ کتے سے نمٹنے کا منظرویر پہاڑیا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ ہر لمحے کو نہ صرف جینے کا ہنر رکھتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ پر چھا جانے کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ویر پہاڑیا سوشل میڈیا
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی