غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔
جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔
(جاری ہے)
یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوااکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔
اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔
جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماسدریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔
غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔
‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔
اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔
مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔
اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق رہے ہیں حماس کے غزہ پٹی
پڑھیں:
جنوبی لبنان میں امریکہ و اسرائیل، یونیفل مشن کے خاتمے کے خواہاں
اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیل ھیوم کا کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں UNIFIL کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی اخبار اسرائیل هیوم نے رپورٹ دی کہ امریکہ UNIFIL فورسز کی سرگرمیوں سے وابستہ اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ اس وقت ہماری، لبنانی فوج کے ساتھ کافی اور موثر ہم آہنگی موجود ہے اس لئے خطے میں UNIFIL مشن کو جاری رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل هیوم نے مزید کہا کہ بین الاقوامی فورسز پر مشتمل یہ ادارہ اپنی تشکیل کے وقت سے لے کر اب تک صیہونی رژیم کی جانب سے دہشت گرد قرار دئیے جانے والے عناصر کو کمزور کرنے میں ناکام رہا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگست کے مہینے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں UNIFIL کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ UNIFIL، اقوام متحدہ کی نگرانی میں تشکیل پانے والا وہ ادارہ ہے جو جنوبی لبنان میں تعینات ہے۔ جس کا ہدف صیہونی رژیم اور لبنان کی درمیانی سرحد پر دراندازی یا کسی بھی اشتعال انگیزی کو روکنا ہے۔ یاد رہے کہ 8 اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی کی حمایت میں "حزب الله" نے اسرائیل کے خلاف وسیع حملوں کا آغاز کیا۔ یہ حملے 23 ستمبر 2024ء کو ایک پُرتشدد صیہونی جنگ میں تبدیل ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہید اور تقریباََ 17 ہزار افراد زخمی ہو گئے جب کہ 14 لاکھ افراد کو بے گھر ہونا پڑا۔ تاہم 27 نومبر 2024ء کو لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہو گئی لیکن اسرائیل بارہا جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ جنگ بندی کے بعد ہونے والے صیہونی دراندازی کے نتیجے میں اب تک 208 نہتے لبنانی شہید اور 501 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔