Islam Times:
2025-09-18@11:31:25 GMT

فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی

اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT

فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی

اسلام ٹائمز: عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہوگیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

سعودی وزیرِ دفاع کا دورۂ ایران ایک غیر معمولی سفارتی اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب ایران امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر مذاکراتی عمل میں مصروف ہے، اسرائیل کے ساتھ شدید تنازع میں ہے اور یمن کے مسئلے پر بھی سعودی پالیسی سے متضاد موقف رکھتا ہے۔ سعودی ولی عہد بن سلمان کے بڑے معاشی منصوبے خطے میں دیرپا امن کے متقاضی ہیں، جبکہ امریکہ کی قیادت سیاسی حکمتِ عملی کے میدان میں بے صبری، عجلت اور جارحانہ طرزِ عمل کا مظہر بن چکی ہے اور اسرائیل بدستور غیر مشروط امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ ایران اس صورتِ حال پر محض بیانات تک محدود نہیں، بلکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لیے بھی تیار ہے۔ فلسطینی محاذ پر وہ عسکری سطح پر اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہے کہ وہ مزاحمت کے ہر راستے پر قائم ہے۔ تاہم، شام کے بحران کے بعد وہ راستے، جن کے ذریعے ایران فلسطین اور حزب اللہ کی عملی مدد کرتا تھا، بڑی حد تک منقطع ہو چکے ہیں۔

اس کے برعکس سعودی عرب کا حمایت یافتہ دو ریاستی حل، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے، اسے خطے میں ایک معمول کی حیثیت دینے اور اس کے ساتھ معاشی تعاون پر مبنی ہے، اس امید پر قائم ہے کہ اس سے خطے میں بڑے معاشی منصوبوں کے لیے امن و استحکام کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ تاہم، دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں "گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ حالات کو نہایت پیچیدہ اور تشویشناک بنا رہا ہے۔ یہ منصوبہ تین ہزار سال پرانی یہودی سلطنت کی سرزمینوں کو مذہبی و تاریخی قلمرو قرار دے کر سامنے آ گیا ہے اور فلسطینی عوام کے لیے متبادل عرب علاقوں کی تجاویز پیش کر رہا ہے۔ اب یہ منصوبہ صرف فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے خطے کی جغرافیائی اور نظریاتی تشکیلِ نو کا ایجنڈا بن چکا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچی ہے، جہاں پسپائی بھی خطرے سے خالی نہیں اور پیش قدمی بھی اندیشوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں اس بند گلی کو مزید تنگ کرتی جا رہی ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انیس ماہ کی جاری جنگ کے دوران سامنے آنے والی خاموشی اور غیر فعالیت کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے سعودی عرب کی وہ پالیسی کارفرما تھی جو مسئلہ فلسطین کو صرف دو ریاستی حل کی عینک سے دیکھتی ہے۔ یہ پالیسی اسرائیل کے ساتھ ممکنہ شراکت داری کے امکانات کو ترجیح دیتی ہے، چاہے اس کے لیے فلسطینی مزاحمت کو پسِ پشت ڈالنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اس مقصد کے لئے جنگ کے دوران بھی ایک ہمہ جہت اور نہایت پیچیدہ حکمتِ عملی اختیار کی گئی، جس کے تحت مزاحمتی بیانیے کو امت کے دینی و اجتماعی شعور سے کاٹ کر اسے محض ایک مسلکی ایجنڈا ثابت کیا گیا اور اسلامی مزاحمت کو دانستہ طور پر فرقہ واریت کے خانے میں مقید کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ اسے امتِ مسلمہ کا مشترکہ فریضہ ماننے کے بجائے اہلِ تشیع کا مخصوص ہدف باور کرایا جا سکے۔

اہلِ سنت مذہبی طبقات کو اس انداز سے متاثر کیا گیا کہ گویا فلسطین کی جنگ دراصل ایران اور حزب اللہ کے مسلکی عزائم کا پرتو ہے۔ یہ تاثر پھیلایا گیا کہ اگر یہ مزاحمت کامیاب ہوئی تو اس کا سارا کریڈٹ ایران کو جائے گا، اور یوں ایران مسلم دنیا میں ایک قائدانہ مقام حاصل کر لے گا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بعض مذہبی شخصیات نے سرِ عام یہ دعویٰ کیا کہ ایران اس جنگ کو سنیوں کو شیعہ بنانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ کہیں اسے سعودی ایران پراکسی جنگ قرار دے کر غیر جانبدار رہنے کا سبق پڑھایا گیا، تو کہیں سکوت و خاموشی کو حکمت و بصیرت کے قالب میں پیش کیا گیا۔ مذہبی وحدت کے کسی بھی اشارے کو کچلنے کے لیے پاکستان میں شیعہ علما کو اتحادِ امت کی کسی بھی کوشش میں دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا تاکہ فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کی کوئی علامت ابھرنے نہ پائے۔ اسی مہم کو تقویت دینے کے لیے ایران کے مزاحمتی ماڈل کو غیر عملی اور نقصان دہ قرار دے کر انسانی حقوق، سیاسی حل، اور ریلیف جیسے "نرم" بیانیوں کو آگے لایا گیا۔ حماس کی قیادت کو تقسیم کر کے ایران سے دور کرنے کی کوششیں کی گئیں، جب کہ فلسطین اتھارٹی کے لیے متبادل مالی وسائل، سفارتی پشت پناہی، اور "ابراہیم معاہدات" جیسے اقدامات کے ذریعے فلسطینی بیانیے کو عرب اسٹیبلشمنٹ کے تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔

عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہو گیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا یہ واقعی فلسطین سے مخلصانہ ہمدردی ہے، یا کسی اور ایجنڈے کا حصہ؟ سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اٹھے؟ اور پہلے 19 ماہ کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے؟ یہ بات مسلمہ ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات ایسے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جو بعض اوقات شدید ظلم پر بھی خاموشی اختیار کروا دیتے ہیں، اور کبھی اچانک انہیں جوش دلا دیتے ہیں جن کی شناخت ضروری ہے۔

یہ تمام تحرک اس صورتِحال کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک خلیجی ریاستیں ہوں گی، کیونکہ ایران کے ابتدائی اہداف وہ امریکی فوجی اڈے ہوں گے جو انہی عرب ممالک کی سرزمین پر قائم ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایران کیخلاف کسی ممکنہ تنازعے کی صورت میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری حمایت ان کے مفادات کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ عرب ممالک خصوصاً پاکستان کی حمایت کو "دفاعِ حرمین شریفین" جیسے مقدس اور حساس مقصد کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی حمایت، سفارتی تعاون، اور ممکنہ دفاعی شراکت کو اپنی حکمتِ عملی کا اہم جزو بنا رہے ہیں۔

آج فلسطین کا مسئلہ صرف ایک انسانی المیہ یا علاقائی تنازع نہیں رہا، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور، نظریاتی یکجہتی، اور عالمی عدل کے تصور کا کڑا امتحان بن چکا ہے۔ اس قضیے میں فرقہ واریت، علاقائی سیاست اور عالمی طاقتوں کے مفادات اس حد تک در آئے ہیں کہ اصل حقیقت تک رسائی اور اس پر ثابت قدمی خود ایک مستقل مزاحمت کا روپ دھار چکی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطین کی حمایت کو کسی سیاسی مصلحت، مسلکی تعصب یا خارجی دباؤ سے بالا تر ہو کر خالصتاً حق و انصاف کی بنیاد پر اپنایا جائے۔ یہ معرکہ صرف زمین یا وسائل کا نہیں، بلکہ یہ حق و باطل کے درمیان وہ تاریخی جدوجہد ہے جو ہماری دینی غیرت، فکری پختگی، اور انسانی شعور کی آخری آزمائش بن چکی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی صورت میں پاکستان کے پاکستان کی عرب ممالک کیا گیا کے ساتھ پر بھی رہا ہے اور اس کے لیے چکا ہے ماہ کی

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • فلسطینی عوام کے لیے تعاون، صحت کے شعبے میں معاہدہ طے
  • ْپاکستان اورفلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • پاکستان اور فلسطین کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون کا اہم معاہدہ
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • سامعہ حجاب نے ملزم زاہد کو معاف کرنے کیلئے کی جانے والی ڈیل پر خاموشی توڑ دی
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • کراچی، صدر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، دو افراد زخمی