سندھ حکومت نے کمشنرز کو دکانیں اور کاروبار ڈی سیل کرنے سے روک دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
کراچی:
سندھ حکومت نے تمام ڈی سیز اور اے سیز کو صوبے میں پرائس کنٹرول کے تحت سیل ہونے والی دکانوں و کاروبار کو ڈی سیل کرنے سے روک دیا۔
سندھ حکومت نے تمام کمشنرز کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اختیار آپ کا نہیں بلکہ محکمہ بیورو آف سپلائی پرائسز کے ڈائریکٹر جنرل کا ہے، سندھ میں کاروبار و دکان سیل کرنے کا اختیار صرف ڈی سی، اے سی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پرائس کنٹرول سمیت دیگر افسران کا ہے، جبکہ ڈی سیل کرنے کا اختیار سیکشن 5A کے تحت ڈی جی بیورو آف سپلائی سندھ کا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی پرائسز زاہد حسین شر کا کہنا تھا کہ پرائس کنٹرول ایکٹ، 5A4 کے تحت تمام ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو کاروبار یا دکان ڈی سیل کرنے سے روکا جائے، ڈی سیل سے متعلق آنے والی درخواستیں ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی پرائسز کو ارسال کی جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیورو آف سپلائی ڈی سیل کرنے
پڑھیں:
صوبہ سندھ میں لوٹ مار کا سسٹم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251002-03-7
اے ابن آدم یہ لوٹ مار کا حکومتی نظام پورے ملک میں بڑی شان وشوکت سے چل رہا ہے، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس لوٹ مار پر فخر کرتا ہے مرکز سے لے کر چاروں صوبوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہمارے حکمران تو سیلاب کو بھی اپنے لیے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتے یہ وہ لوگ ہیں جو صرف سیلاب زدہ علاقے کے دورہ بھی اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے کرتے ہیں، حکومت برطانیہ کا 30 لاکھ پائونڈ امداد کا اعلان حکومت نے عالمی اداروں سے بھی امداد کی اپیل کردی ہے۔ سنگاپور امداد کے لیے 50 ہزار ڈالر دے گا۔ کاش ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تو ہمیں دوسرے ممالک سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں اپنے عروج پر ہیں، غیر ضروری اخراجات بھی اربوں میں ہیں، کون سی ایسی مراعات ہے جو حکمران طبقہ وصول نہیں کرتا، غریب عوام کے پیسوں پر عیاشی کرنے والے حکمران اپنی عیاشیوں کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے ٹیکس لگاتے رہتے ہیں اگر صرف بجلی کے بل کے ٹیکس دیکھ لیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ کراچی میں کمرشل بلوں میں ایک ہزار کا بھتا لگا ہوا ہوتا ہے اس کے علاوہ کے ایم سی کے 150 روپے الگ آتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے جماعت اسلامی کا کہ اُس نے بجلی کے بلوں میں موجود کے ایم سی چارجز پر عدالت میں مقدمہ کردیا ہے۔ میری جماعت اسلامی سے اپیل ہے کہ کراچی میں جو بجلی کے کمرشل بل موصول ہوتے ہیں ان میں موجود 1000 جو فکس چارجز کے نام سے یہ مافیا وصول کررہی ہے اس پر بھی مقدمہ کیا جائے، کرپشن کے خلاف آواز حق صرف جماعت اسلامی ہی بلند کرتی ہے۔ کراچی کے تاجروں نے کے ایم سی ٹیکس اور اس میں مزید اضافے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اب کراچی کے عوام ماہانہ 285 کروڑ روپے میونسپل ٹیکس ادا کریں گے۔ لیکن کراچی کی عوام اور تاجروں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جارہے۔
پریس کانفرنس میں تاجروں نے برسات کے موقع پر مرتضیٰ وہاب اور وزیراعلیٰ سندھ کے رویے کو انتہائی ظالمانہ اور سنگدلانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بارش کی پیشگی اطلاعات کے باوجود میئر کراچی نے عوام اور تاجروں کو بارش سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔ تاجروں نے کہا کہ کیماڑی سے سہراب گوٹھ تک گلشن اقبال سے سعدی ٹائون اور لانڈھی تک مارکیٹوں اور آبادیوں میں 5 سے 10 فٹ تک پانی داخل ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں اور عوام کا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا جس سے ان کا اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ابن آدم کہتا ہے یہ نقصان کیا بلدیہ ادا کرے گی۔ قارئین اس حوالے سے بڑی اہم خبر میری نظر سے گزری، یہ خبر کراچی کی نہیں ہے مگر ایک بڑا سچ ضرور ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔ عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کررہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے۔
عدالت عالیہ نے 4 اور عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔ جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتادیں جو وہ کام کررہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ ابن آدم سچ بولنے پر جسٹس محسن کیانی صاحب کو سلام پیش کرتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت بھی حکومت کی زبان بولتی ہے۔ حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔ اداروں میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں رہی، ہر ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتی ہے، ٹھیکے من پسند لوگوں کو ملتے ہیں جس کام کے پیسے ٹھیکے دار کو دیے جاتے ہیں وہ سب حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔ کاغذات میں کام کردیا جاتا ہے اور مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے، برسوں سے لوٹ مار کا یہ نظام سرکاری اداروں میں پھل پھول رہا ہے، افسران اور ٹھیکے دار راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن جاتے ہیں، پھر من پسند افسران اپنے سیاسی آقائوں کو ان کا حصہ باعزت طریقے سے دے کر آتے ہیں تا کہ ان کی کرسی مضبوط تر ہوجائے۔
ایک بہت بڑی ناانصافی محکمہ تعلیم میں ہورہی ہے وہ استاد جو آئی بی اے کے امتحان میں اور قابلیت کی بنیاد پر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے ان کی کوئی پنشن نہیں، تنخواہ ایک کلرک کے برابر جبکہ نااہل پرانے استاد جو آج 19 اور 20 گریڈ تک پہنچ گئے ان کو آج بھی لکھنے اور بولنے کی تمیز نہیں ہے۔ ایک نسل برباد کرکے رکھ دی ان کی تنخواہیں لاکھوں میں پنشن نہایت پرکشش جب چاہتے ہیں چھٹی کرلیتے ہیں سارا دن سیاسی گفتگو اور چائے پی کر گھر چلے جاتے ہیں جبکہ وہ استاد جو آئی بی اے سے امتحان پاس کرکے خالص میرٹ پر بھرتی ہوئے ہیں نہ تو وہ چھٹی کرسکتے ہیں۔ نہ ان کی گھر کے قریب پوسٹنگ وغیرہ ہوسکتی ہے، ان استادوں میں خواتین استاد بھی شامل ہیں جو دور دراز کا سفر طے کرکے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے آتی ہیں، آدھی سے زیادہ تنخواہ تو ان کی کرایہ میں لگ جاتی ہے۔ ابن آدم حکومت سندھ سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان سب کی تنخواہوں میں 100 فی صد فوری اضافے کا اعلان کریں ساتھ ان کو پنشن کی سہولت بھی دی جائے، ایک مسئلہ اور نظر سے گزرہ ہے کہ جب نئے استادوں کے پرانے واجبات مطلب تنخواہ کا Arrear جب اے جی سندھ جاتا ہے تو محکمہ تعلیم والے اس پر ان سے اپنا کمیشن طلب کرتے ہیں، نام استعمال کرتے ہیں، اے جی سندھ کے دفتر کا، ہوسکتا ہے مل کر دونوں طرف کمیشن کھایا جاتا ہو کیونکہ بغیر رشوت کے تو کوئی ممکن ہی نہیں ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ میں حکومت کے نام پر لوٹ مار اور کرپشن کا سسٹم چل رہا ہے اس کی ذمے داری ان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے فارم 47 کے ذریعے ان لوگوں کو مسلط کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کراچی اور سندھ کی تباہی کی سب سے زیادہ ذمے دار ہیں اور یہ دونوں آج بھی وفاق کا حصہ ہیں۔ 20 سال گزر گئے K4 منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ تین حکومتیں گزر گئیں گرین لائن پروجیکٹ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ریڈ لائن منصوبہ اہل کراچی کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ 15 سال سے پی ایف سی ایوارڈ نہیں جاری کیا گیا۔ سندھ حکومت 15 سال میں کراچی کے 3360 ارب روپے کھا چکی ہے جس میں وفاق کا حصہ بھی شامل ہے۔ سندھ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ نہیں سمجھتی صرف مال بنانے کے لیے اہل کراچی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور 40 وڈیروں کا دوسرا نام ہے۔ مرتضیٰ وہاب اہل کراچی کے ترجمان بننے کے بجائے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔