Jang News:
2025-09-17@23:50:15 GMT

عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں

—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے بانئ پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانئ پی ٹی آئی کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ

بانئ پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کی تشکیل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کاز لسٹ منسوخ کر دی گئی۔

پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی کارکردگی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے سوال کیا کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا؟ 

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم بانئ پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے سوال کیا کہ جیل میں زیرِ حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے؟ میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد ضمنی چالان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لے کر ٹیسٹ کروالیں۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے سوال کیا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی؟ 

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 14جولائی 2024ء کو ٹیم بانئ پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کر دیا، بانئ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کہا گیا گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہو گا۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جا کر فارنزک ٹیسٹ کرائیں۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دے دی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔

ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، 5 دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزدملزم کی اپیل 2017ء میں ابتدائی سماعت کے لیے منظور ہوئی، کیس میں نامزد ملزم 7 سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، ہمیں 3 ماہ کا وقت دیں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ بانئ پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر کی گئی اپیلیں 2 بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانئ پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے، بانئ پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچوئل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اسپیشل پراسیکیوٹر بانئ پی ٹی آئی کے ٹرائل کورٹ مقدمات میں کے لیے

پڑھیں:

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!

جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

ڈنمارک سپریم کورٹ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی جج، مسٹر جسٹس محمد احسن کی کہانی تو آدھے ادھورے کالم میں سمیٹی جاسکتی تھی کہ وہ بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے ہیں لیکن ڈنمارک سپریم کورٹ کی داستان، کوشش کے باوجود ، دو کالموں کے کوزے میں بند نہیں کی جاسکتی۔ میں ججوں کے انتخاب اور عدالت کے طریقِ سماعت کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ آج چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر کے دلچسپ نظام کی بات کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تعینات ہو نے والا ہر جج ستّر سال کی عمر تک اپنے منصب پر برقرار رہتا ہے۔ چیف جسٹس کو وہاں صدر (President) کہا جاتا ہے۔ صدرِ سپریم کورٹ یعنی چیف جسٹس کے انتخاب وتقرر میں حکومت، کسی اعلی عہدیدار، ادارے، حتٰی کہ بادشاہ کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 1861؁ میں ایک روایت قائم ہوئی جسے 1915؁ میں ایک واضح اور متعین شکل دے دی گئی۔ چیف جسٹس کے ستّر سال کی عمر تک پہنچنے، یعنی اُس کی ریٹائرمنٹ سے تین چار ماہ قبل اٹھارہ رُکنی سپریم کورٹ کے سترہ جج صاحبان میں نئے چیف جسٹس کے انتخاب پر مشاورت شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طورپر تین چار سینئر جج صاحبان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہر جج اپنی رائے مرتب کرتا ہے۔ فیصلہ اتفاق رائے سے نہ ہو تو کثرت رائے سے ہوجاتا ہے۔ سو جج صاحبان خود اپنا چیف جسٹس چُن لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کا سب سے سینئر ہونا ضروری نہیں۔ اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نئے چیف جسٹس کے پاس خدمات سرانجام دینے کے لئے معقول وقت پڑا ہو۔ چُنے گئے چیف جسٹس کا نام رسمی طورپر وزارتِ انصاف کو بھجوا دیاجاتا ہے جو ’دربارِ شاہی‘ کو ارسال کردیتی ہے اور شاہ اس کی تقرری کا فرمان جاری کردیتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ ازخود، عوامی آگاہی کے لئے، اُسی دن نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کردیتی ہے، جس دِن یہ نام وزارتِ انصاف کو بھیجا جاتا ہے۔ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی بھی سطح پر جج صاحبان کے فیصلے سے انحراف کیاگیا ہو۔ ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ اختلاف کرنے والے جج صاحبان اپنے سامنے والی شاہرہ پر کوئی دھوبی گھاٹ بنائیں، اپنی داغدار عبائیں دھوئیں اور سوکھنے کے لئے سپریم کورٹ کی دیواروں پر ٹانگ دیں۔ مجھے کسی ایسے وقوعے کا سراغ بھی نہیں ملا کہ آئینی وقانونی نکات کی تشریح وتوضیح کے بجائے وہ ایک دوسرے کے چہرے مسخ کرنے کے لئے، کسی ذاتی زخم یا پرخاش کی بنا پر، لُغتِ کوچہ وبازار سے ’دشنام تلاشی‘ کریں اور باہمی خط وکتابت کا سلسلہ شروع کردیں۔ ایسا ہوا ہوتا تو 1661؁ سے آج تک 364 سالوں میں ’’مکتوباتِ منصفانِ ڈنمارک‘‘ کی کئی ضخیم جلدیں منظر عام پر آ چکی ہوتیں۔ ’ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کی رپورٹ کے مطابق، سکنڈے نیویا کے چار ممالک ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فن لینڈ بالترتیب پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے حوالے سے پہلا اسلامی ملک ’’متحدہ عرب امارات‘‘ ہے، جو 39 ویں نمبر پہ آتا ہے۔ پاکستان، انتہائی فعال، متحرک اور آتش مزاج عدلیہ رکھنے کے باوجود 129 ویں نمبر پر ہے۔ مجھے تو یہ ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کی سازش لگتی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قازقستان، انڈونیشیا، تیونس، ازبکستان، الجیریا، مراکش، لبنان، ترکی، نائیجیریا، بنگلہ دیش اور ایران جیسے ممالک کا گراف ہم سے بہتر ہو۔ ممکن ہو تو خطوط نویسی پر کامل دسترس رکھنے والے کسی جج کو ’’ورلڈ جسٹس پروگرام‘‘ کے نام بھی ایک بارُود پاش مکتوب لکھنا چاہیے۔ نہایت ہی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ڈنمارک کے جج صاحبان میں سے کسی نے ’رفاۂِ عامہ‘ کے حوالے سے عدل وانصاف کی ایسی درخشاں مثال قائم نہیں کی کہ کئی کئی منزلہ رہائشی ٹاور زمیں بوس کرا دیے ہوں، پانی کی قلت دور کرنے کے لئے ڈیمز تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھالیا ہو، ایک پروان چڑھتے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہو، شہر میں ٹرام چلانے کے لئے ہلکان ہو رہا ہو یا کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائیٹی کے معاملات میں رخنہ اندازی کی ہو۔ ڈنمارک عدالت کی کمزوری اور بے چارگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی وزیراعظم کو پھانسی چڑھانا یا منصب سے ہٹانا تو بہت دور کی بات ہے، اُسے عدالت میں طلب تک نہیں کرسکی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ قانون کی کیسی حکمرانی ہے جس نے ڈنمارک کو سب سے اونچی مسند پر بٹھا دیا ہے؟ میرے ایک سوال پر جسٹس محمد احسن نے بتایا کہ وہ آخری بار 2015؁ میں اپنے والد کی میّت لے کر پاکستان آئے تھے۔ رحمت خان نے اپنے خاندان کی فصل کو ڈنمارک کی کھیتی میں پروان چڑھتے دیکھا لیکن زندگی کے آخری لمحات میں وصیّت کی کہ مجھے کوپن ہیگن میں نہیں، میرے گائوں دھنّی میں دفن کرنا۔ جسٹس صاحب کو اپنے وطن آئے اب دس برس ہونے کو ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سپریم کورٹ اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دے۔ اُن کی عزت افزائی کے لئے تقریبات کا اہتمام کرے۔ انہیں سمجھائے کہ حقیقی اور بے لاگ انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ اُنہیں بتائے کہ دورِ حاضر کے روشن خیال اور تَر دماغ جج صاحبان فیصلے ہی نہیں، خطوط بھی لکھتے ہیں تاکہ ججوں کا باہمی دوستانہ رشتہ مضبوط رہے۔ یہ بھی گوش گزار کیاجائے کہ سائیکلوں یا بسوں پہ عدالت جانا، عدالتی عظمت ووقار کی توہین ہے۔ دبے لفظوں میں یہ بھی بتادینا چاہیے کہ تنخواہ سے پچاس فی صد ٹیکس کٹوا دینا کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اگر چیف جسٹس کی صرف پنشن ہی 23 لاکھ 90 ہزار روپے ہے تو آپ لوگوں کو بھی اپنی معیشت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ بھی کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ ڈنمارک کی سپریم کورٹ کا سارا عملہ صرف 60 افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں تو اتنے اہلکار ایک جج کو میّسر ہیں۔ کسی اپیل کا فیصلہ صرف سات دنوں میں کردینا بھی قرینِ انصاف نہیں۔ اس سے زیرِالتوا مقدمات کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے باہر سائلوں کی میلوں لمبی قطاریں نہ لگی ہوں اور عدالت کے تہہ خانے ہزاروں زیرالتوا مقدمات کی فائلوں سے نہ بھرے ہوں تو عدالت کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ اور یہ تو انتہائی معیوب حرکت ہے کہ جج کے پاس کوئی ذاتی حاجب یا نائب قاصد تک نہ ہو اور وہ اپنے لئے چائے بھی خود بنا کر لائے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ڈنمارک کی عدالت ’’ریاست‘‘ کے دوسرے دو ستونوں، انتظامیہ اور مقننہ کو اپنا کھلا دشمن خیال کرتے ہوئے ہمیشہ انہیں نیزے کی نوک پر رکھے اور اُن کے اقدامات کو گھاس کے تنکے جیسی اہمیت بھی نہ دیا کرے۔ مناسب ہوگا کہ معزز مہمان کے لئے ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں عالی مرتبت ریٹائرڈ جج صاحبان، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن کو خاص طورپر مدعو کیاجائے تاکہ وہ ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کے موضوع پر دانش وحکمت کے موتی بکھیریں۔ ان ساری تقریبات میں اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ جسٹس محمد احسن کو بولنے کا موقع نہ دیاجائے۔ مبادا وہ کوئی ایسا وائرس نہ چھوڑ جائیں جو ہماری صاف شفاف عدالتی فضا میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے اور ہماری عدلیہ بھی ڈنمارک کی عدلیہ جیسی ہوجائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم محض’ ورلڈ جسٹس پروگرام‘ کا زینہ چڑھنے کے شوق میں ڈنمارک کی 364 سالہ روایات کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی اٹھہتر سالہ درخشاں روایات کو بھی خاک میں ملا دیں۔

٭٭٭٭٭

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بچیوں سے زیادتی کیس ‘ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • جسٹس طارق جہانگیری کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ حصول کی درخواست دائر
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • پانامہ کیس آڈیو لیک پر کمیشن کی تشکیل کی درخواست عدم پیروی پر نمٹادی گئی