لاہور:وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ دریاؤں میں آنے والے سیلابی پانی کے استعمال پر کسی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ دریاؤں سے آنے والے سیلابی پانی کے استعمال پر صوبے کو کسی اور کی ہدایات کی ضرورت نہیں اور نہ ہی سندھ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کرے۔

انہوں نے کہا کہ زیرِ غور کینالز منصوبے میں صرف سیلابی پانی استعمال کیا جائے گا، جو ضائع ہونے کے بجائے فائدے میں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کوئی نہر تعمیر نہیں ہوئی، مگر اتفاق رائے کی کوششیں جاری ہیں، تاہم مذاکرات دھمکیوں سے نہیں، بات چیت سے آگے بڑھتے ہیں۔

عظمیٰ بخاری نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی گزشتہ 16 سال سے سندھ میں اقتدار میں ہے، مگر کسانوں کے مسائل آج بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی گمراہ کن بات کرے گی تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہر بیان کا جواب دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے مجوزہ منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج جاری ہے۔ سکھر بائی پاس پر وکلا کا دھرنا تاحال جاری ہے، جس سے سندھ اور پنجاب کے درمیان آمد و رفت متاثر ہوئی ہے۔

اس معاملے پر وفاقی سطح پر بھی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ اور سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے درمیان مذاکرات پر اتفاق ہو چکا ہے۔ دونوں جانب سے رہنما پریس کانفرنس بھی کررہے ہیں جب کہ وزیراعظم نے معاملے کہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سیلابی پانی

پڑھیں:

بھارتی آبی جارحیت، سندھ طاس معاہدہ کب ہوا، کیا بھارت پاکستان کا پانی بند کرسکتا ہے؟

اسلام آ باد:

بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی بند کرنے کا اعلان کیا اور بھارت کا یہ وطریہ نیا نہیں ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ایسا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا تاریخی سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں ہوا، جس کے تحت مشرقی دریا بھارت جبکہ مغربی دریا پاکستان کو دیے گئے اور یہ معاہدہ پانی کی تقسیم کا ضامن ہے، تاہم بھارت کی بعض آبی سرگرمیوں پر پاکستان نے متعدد بار اعتراضات کیے ہیں۔

سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں پاکستان کے اس وقت کے فوجی صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پایا تھا اور  اس معاہدے میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔

عالمی بینک کی نگرانی میں ہونے والے معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا۔

معاہدے کے تحت بھارت کو مشرقی دریاؤں کا مکمل کنٹرول دیا گیا جبکہ مغربی دریاؤں کے پانی پر پاکستان کا پہلا حق تسلیم کیا گیا، تاہم بھارت کو ان پر محدود استعمال جیسے آب پاشی، پن بجلی کی مشروط اجازت دی گئی۔

پاکستان کو خطرہ تھا کہ بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کر کے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے، اسی لیے معاہدے میں تنازعات کے حل کا جامع نظام بھی شامل کیا گیا، جس میں انڈس واٹر کمیشن کی تشکیل، سالانہ اجلاس اور دوروں کی اجازت اور عالمی ثالثی فورمز تک رسائی کی گنجائش شامل ہے۔

بھارت کی جانب سے گزشتہ دہائیوں میں کشن گنگا، بگلیہار اور رتلے ڈیمز کی تعمیر جیسے اقدامات پر پاکستان نے بارہا معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور معاملہ عالمی سطح پر بھی اٹھایا۔

پاکستان کی طرف سے یہ مؤقف مستقل رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ناقابلِ تنسیخ عالمی معاہدہ ہے، جس میں کسی بھی فریق کی طرف سے یک طرفہ طور پر دستبرداری یا خلاف ورزی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی شمار ہو گی۔

پاک-بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے تاہم گزشتہ روز بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سے متعلق یکطرفہ فیصلے کو آبی جارحیت کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نہ ہی اس کی آئینی حیثیت ہے اور نہ اخلاقی طور پر اس کا جواز ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر
  • بھارتی آبی جارحیت، سندھ طاس معاہدہ کب ہوا، کیا بھارت پاکستان کا پانی بند کرسکتا ہے؟
  • سندھ طاس معاہدہ اور بھارت کے ناپاک مذموم عزائم
  • سندھ کو اختیار نہیں پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں پر اعتراض کرے: عظمیٰ بخاری 
  • کینالز منصوبے میں سیلاب کا پانی استعمال ہوگا، اس پر سندھ ہمیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، عظمی بخاری
  • سندھ میں کسانوں کا کوئی پُرسان حال نہیں: عظمیٰ بخاری
  • پیپلزپارٹی سندھ میں 16 سال سے ہے، اپنی کارکردگی پر دھیان دے‘ عظمیٰ بخاری
  • مذاکرات دھمکیوں کےذریعے نہیں ہوتے: عظمیٰ بخاری
  • پیپلز پارٹی سندھ میں 16 سال سے ہے، اپنی کارکردگی پر دھیان دے: عظمیٰ بخاری