ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہو گئے ہیں۔ دونوں اطراف کہہ رہے ہیں کہ معاہدہ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ ایران اپنا نیو کلئیر پروگرام بند کرنے اور امریکا معاشی پابندیاں ختم کرنے کے اشارے دے رہا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کے ساتھ ا چھی ڈیل کی جائے تو وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ اگر ڈیل نہ کی گئی توپھر اس کے پاس ایٹم بم بنانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب کیا یہ ڈیل ہو جائے گی۔
ویسے تو یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یوکرین کے پاس تو ایٹمی صلاحیت موجود تھی۔ اس وقت یوکرین پر بھی ایسے ہی دباؤ ڈالاگیا۔اس سے اس کی ایٹمی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ ا س وقت یوکرین کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ یوکرین کی سیکیورٹی دنیا کے ذمے ہوگی۔ امریکا سمیت سب نے یوکرین کو اس کے دفاع کی ضمانت دی۔
یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے سبز باغ بھی دکھائے گئے۔ لیکن آج یوکرین کی حالت دیکھیں۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے۔ آج کی صورتحال یہ ہے کہ امریکا اس تنازع سے پیچھے ہٹ چکا ہے، یورپ بھی اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے۔ یوکرین کو یورپی یونین میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کے ایک بڑے حصہ پر روس قبضہ کر چکا ہے۔ اور دنیا یوکرین کی مزید مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سب یوکرین کو سرنڈر کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوکرین کو شکست تسلیم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یوکرین تنہا نظر آرہا ہے۔
اگر آج یوکرین کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی تو کیا روس یوکرین پر حملہ کر سکتا تھا۔ ایٹمی طاقت دفاع کی ضامن ہے۔ پاکستان کی مثال بھی سامنے ہے۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کی ہے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت کئی دفعہ جنگ کے قریب آئے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی ایٹمی طاقت ہی جنگ روک رہی ہے۔
ایرن اور امریکا کے درمیان معاہدہ کو ان مثالوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ماہرین کی رائے ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے کافی قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران چھ ماہ میں چار ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں۔ اسی لیے ایران سے فوری ڈیل کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل بھی ایران سے ڈیل کے حق میں نظر آرہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ایران سے ڈیل کے لیے امریکا کیوں بے تاب ہے۔ ایٹمی ایران ایک خطرناک ملک ہوگا۔
ایران اس وقت امریکا سے صلح کرے گا۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ایران کے سب اتحادی بری طرح مارے گئے ہیں۔ حماس بھی ایران کا اتحادی ہے۔ حماس کی لڑائی بھی ایران کی لڑائی تھی۔ لیکن ایران نے حماس کا کوئی خاص ساتھ نہیں دیا۔ ایران غزہ کی جنگ سے دوررہا۔ اس نے اسرائیل سے جنگ سے اجتناب کیا ہے۔
ایران اور اسرائیل جنگ کے قریب آئے لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ اسی طرح حزب اللہ بھی ایران کا اتحادی ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے اور ایران، اسرائیل حزب اللہ جنگ سے دور رہا۔ اس نے عملی طورپر حزب اللہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا پھر آپ حوثیوں کو دیکھ لیں۔ انھیں بھی ایران کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن اب جب امریکا حوثیوں پر حملے کر رہا ہے تو بھی ایران خاموش ہے۔
حال ہی میں سعودی وزیر دفاع نے ایران کا دورہ کیا۔ ان کی ایرانی سپریم لیڈر آئت اللہ خامنائی سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بہتری پر بات ہوئی۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان بھی حوثیوں پر ہی تنازعہ تھا۔
ایسے میں اس جنگ میں ایران حوثیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن اب جب امریکا نے حوثیوں پر حملے شروع کیے ہیں تو ایران نے حوثیوں کی ویسی مدد نہیں کی جیسی توقع تھی۔ ایران نے حوثیوں کے ساتھ بھی وہی پالیسی رکھی جو اس نے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ رکھی۔ ایران نے ہر دفعہ خود جنگ سے بچنے کے لیے اتحادیوں کی قربانی دی ہے۔ ایران نے خود کو بچانے کی ضرورت کو اہم رکھا ہے۔
آج بھی ایران جنگ سے بچنے کے لیے امریکا سے معاہدہ کا خواہش مند لگ رہا ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ اگر جنگ کے بادل ایران سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لیے ایران امریکا سے صلح کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکا سے ڈیل میں اسرائیل سے ڈیل بھی شامل ہوگی۔ ایران امن کی ضمانت چاہے گا۔ ایران یہ تو نہیں چاہے گا کہ وہ ایٹمی پروگرام بھی بند کر دے۔ امریکا سے معاہدہ بھی کر لے اور پھر اسرائیل حملہ بھی کر دے۔ اس لیے میری رائے میں ایران امریکا مذاکرات میں اسرائیل شامل ہے۔ ایران کا مفاد اسی میں ہے کہ اسرائیل سے امن کی شرط بھی شامل ہو۔
لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج جو معاہدہ ہوگا وہ قائم رہے گا۔ ایران نے تو دیکھا ہے کہ کیسے معاہدے یک طرفہ توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ایران ایٹمی پروگرام ختم کر دیتا ہے پھر کیا ہوگا۔ کیا پھر اسرائیل سے حملہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایران کے پاس ڈرون ہیں۔ روائتی ہتھیار بھی زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ روائتی ہتھیاوں سے ایران کا تحفظ کر سکتا ہے۔ لیکن روائتی ہتھیار اور ایٹم کی طاقت میں فرق ہے ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایٹمی طاقت اسرائیل سے اور امریکا بھی ایران یوکرین کو یوکرین کی امریکا سے کے درمیان ایران اور ایران کا ایران نے حزب اللہ ایران سے ا رہا ہے ایٹم بم ہے کہ ا کے پاس اس لیے لیکن ا کے لیے سے ڈیل
پڑھیں:
آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ، عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم
کراچی (آئی این پی) امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے، عام عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، ایک لاکھ 25 ہزار تنخواہ والے شخص کو ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بجٹ میں پھر خوف پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے، پانچ ماہ سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، مصنوعی دعوں سے معیشت بہتر نہیں ہوتی، عملی اقدامات سے ہوتی ہے، تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس کی مد میں 400 ارب روپے جمع کرائے۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ بڑے جاگیرداروں کی شوگر ملیں ہیں، یہ حکومتوں میں ہوتے ہیں، مخصوص طبقے کو لوٹ مار کرنی ہے، ٹیکس جمع نہیں کرانا، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا نظام ازسر نو بنایا جائے، حکومت بجلی کے ٹیرف میں مستقل کمی نہیں کر رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ عام صارفین سے لوٹ مار کی جارہی ہے، مخصوص طبقے کی مراعات بڑھ رہی ہیں، عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا، دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو دیے جارہے ہیں۔امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ 67 ہزار افراد انتظامیہ کی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے حج نہیں کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ کے فور منصوبہ مستقل تاخیر کا شکار ہے، ارسا نے کراچی کا پانی نہیں بڑھایا، کے فور منصوبے کا تخمینہ دو سو ارب تک پہنچ چکا ہے، کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ امریکا نے غزہ میں جنگ بندی پر ویٹو کردیا ہے، اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے امن کے بجائے جنگ کو فوقیت دی، امریکا نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ہم نے بھارت کو شکست دی، بھارت اب تنہا ہو چکا ہے۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر مسلم ممالک کی افواج کے سربراہان کا اجلاس بلائیں، تمام ممالک کے سپہ سالاروں کو اکٹھا کیا جائے۔حافظ نعیم الرحمان نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے افغانستان میں قتل عام کیا، امریکا امن کا داعی نہیں بلکہ انسانیت کا دشمن ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے غزہ کی صورتحال پر احتجاج نہیں کیا۔