کیتھولک مسیحی برادری کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس خورخے ماریو برگولیو کی آخری رسومات میں تقریباً 130 غیر ملکی وفود نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے جن میں 50 سربراہانِ مملکت اور 10 حکمراں بادشاہ شامل ہیں۔

درج ذیل سربراہان روم میں منعقدہ پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کریں گے۔

اقوامِ متحدہ: سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس

یورپی یونین: یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین اور یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا

امریکا: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ

ارجنٹینا: صدر ہاویئر میلی

برازیل: صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا اور ان کی اہلیہ جانجا

ہونڈوراس: صدر زیومارا کاسترو

 آسٹریا: چانسلر کرسچن اسٹاک

بیلجیئم: شاہ فلپ، ملکہ میتھلڈ اور وزیرِ اعظم بارٹ ڈی ویور

بلغاریہ: وزیرِ اعظم روزین جیلیازکوف

کروشیا: صدر زوران میلانوویچ اور وزیرِ اعظم آندریج پلینکوویچ

جمہوریہ چیک: وزیرِ اعظم پیٹر فیالا

ڈنمارک: کوئن میری

ایسٹونیا: صدر الار کریس

فِن لینڈ: صدر الیگزینڈر اسٹب

فرانس: صدر ایمانوئل میکرون

جرمنی: صدر فرینک والٹر اسٹین میئر، سبکدوش ہونے والے چانسلر اولاف شولز

یونان: وزیرِ اعظم کیریاکوس میٹسوٹاکس

ہنگری: صدر تماس سلیوک اور وزیرِ اعظم وکٹر اوربان

آئر لینڈ: صدر مائیکل ہگنس اور ان کی اہلیہ سبینا کے علاوہ وزیرِ اعظم مائیکل مارٹن

کوسوو: صدر وجوسا عثمانی

لیٹویا: صدر ایڈگرس رنکیویچس

لتھوانیا: صدر گیتاناس نوسیدا

مالڈووا: صدر مایا سینڈو

موناکو: شہزادہ البرٹ دوم اور شہزادی شرلین

نیدر لینڈز: وزیر اعظم ڈک شوف، وزیرِ خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ

شمالی مقدونیہ: صدر گورڈانا سلجانوسکا ڈیوکووا

ناروے: شہزادہ ہاکون، شہزادی میٹ مارٹ اور وزیرِ خارجہ ایسپن بارتھ ایڈ

پولینڈ: صدر اندرزیج ڈوڈا اور ان کی اہلیہ

پرتگال: صدر مارسیلو ریبیلو ڈی سوزا اور وزیرِ اعظم لوئس مونٹی نیگرو

رومانیہ: عبوری صدر ایلی بولوجان

روس: وزیرِ ثقافت اولگا لیوبیمووا

سلوواکیہ: صدر پیٹر پیلیگرینی

سلووینیا: صدر نتاشا پیرک موسر اور وزیرِ اعظم رابرٹ گولوب

اسپین: شاہ فلپ ششم اور ملکہ لیٹیزیا

سوئیڈن: شاہ کارل گسٹاف اور ان کی اہلیہ ملکہ سلویا، وزیرِ اعظم الف کرسٹرسن

یوکرین: صدر ولودیمیر زیلنسکی اور ان کی اہلیہ اولینا زیلنسکا

برطانیہ: شاہ چارلس سوم، شہزادہ ولیم اور وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر

اسرائیل: ہولی سی کے سفیر یارون سائیڈ مین

کیپ وردے: صدر جوزے ماریا نیویس

وسطی افریقی جمہوریہ: صدر فاسٹن آرچینج تواڈیرا

بھارت: صدر دروپدی مرمو

فلپائن: صدر فرڈینینڈ مارکوس اور خاتونِ اوّل لیزا مارکوس

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اور ان کی اہلیہ اور وزیر

پڑھیں:

وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔

 ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔

 ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔

وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔

عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔

جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔

سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خارجہ
  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خا رجہ
  • سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کی حمایت پر وزیرِاعظم کا اظہارِ تشکر
  • کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟
  • گلوبل ہیلتھ فورم 2025 میں شرکت کیلیے وزیر صحت مصطفیٰ کمال بیجنگ روانہ
  • پاکستان اور سعودی عرب کا سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • ٹی ٹی پی کے نمبرز اور گروپس بلاک کیے جائیں، وزیر مملکت طلال چوہدری کا واٹس ایپ سے مطالبہ
  • ٹی ٹی پی کے نمبرز اور گروپس بلاک کیے جائیں، وزیر مملکت کا واٹس ایپ سے مطالبہ
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے، وزیراعظم
  • وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس