غزہ: ملبے تلے لاپتہ افراد کی باوقار تجہیزوتکفین کی دلدوز کوشش
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے والی مشینری کو بمباری میں نقصان پہنچنے سے تباہ شدہ عمارتوں تلے دبے لوگوں کی زندگی بچانے کی موہوم امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔
گزشتہ روز اسرائیل کی بمباری سے ایسے متعدد بلڈوزر اور کھدائی مشینیں تباہ ہو گئی ہیں جنہیں ملبے سے زندہ و مردہ لوگوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے غزہ کے مقامی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بلڈوزر تباہ ہونے سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام بھی معطل ہو گیا ہے۔
ہزاروں افراد ملبے تلے دفناطلاعات کے مطابق غزہ پر 7 اکتوبر 2023 سے اب تک ہونے والی بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے کم از کم 11 ہزار لوگ دب گئے تھے جن میں سے بیشتر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔
(جاری ہے)
غزہ کے عاطف نصر جنگ سے پہلے عمارتیں تعمیر کرنے اور سڑکوں کی مرمت کا کام کیا کرتے تھے اور اب ملبے سے لاشیں نکالتے ہیں۔ بلڈوزر تباہ ہونے سے اب ان کے لیے اپنا کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
داہدو خاندان کے بیٹے عمر ایک سال پہلے اسرائیل کی بمباری میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی لاش سات منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے اب دریافت ہوئی ہے۔ ان کے بھائی معاد نے بتایا کہ گزشتہ جنگ بندی کے عرصہ میں انہوں نے عمر کی لاش نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن عمارت بہت بڑی ہونے اور بھاری مشینری کی عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں ناکامی ہوئی۔
انہوں نے لاش نکالنے کے لیے بلڈوزر اور کھدائی مشینیوں سے مدد لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کی بمباری میں یہ مشینیں تباہ ہو چکی ہیں۔
آخری رسوماتجنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں مقیم داجانی خاندان اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے پر قیام پذیر ہے جس کے نیچے ان کے تین بچوں کی لاشیں بھی دفن ہیں۔ ان کے والد علی بتاتے ہیں کہ جب بمباری شروع ہوئی تو وہ اپنے خاندان کے چند لوگوں کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف چلے گئے۔
واپسی پر ان کا گھر تباہ ہو چکا تھا اور ان کے بچے ملبے تلے دب گئے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ باامر مجبوری اس جگہ پر رہ رہے ہیں لیکن یہ کوئی زندگی نہیں اور ان کے لیے حالات ناقابل برداشت ہیں۔ انہیں نہ تو صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی خوراک۔ وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی لاشیں مل جائیں تاکہ وہ انہیں دفن کر سکیں۔ چند روز قبل انہوں نے قریبی علاقے میں کدالوں سے کھدائی کرنے والوں کو ملبہ ہٹانے کے لیے کہا تھا جنہوں نے اپنی سی کوشش کی لیکن اب یہ کام بھی رک گیا ہے۔
پچاس ملین ٹن ملبہاقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ جنگ میں غزہ کی تقریباً 90 فیصد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ ان عمارتوں کی تباہی سے 50 ملین ٹن ملبہ جمع ہو چکا ہے جسے موجودہ حالات میں صاف کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔
امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ملبہ ہٹانے میں تاخیر کے نتیجے میں ناصرف غزہ بھر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحول کے لیے بھی تباہ کن ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملبے تلے تباہ ہو کے لیے
پڑھیں:
روس کا مسافر طیارہ خراب موسم کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ، 49 افراد کی ہلاکت کا خدشہ
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک) روس کا ایک مسافر طیارہ ایک دور دراز پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا ہے، اور اس میں سوار 5 بچوں سمیت تمام 49 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
برطانوی اخبار ’دی سن‘ کی رپورٹ کے مطابق 50 سال پرانا اے این 24 طیارہ کم بادلوں اور موسلا دھار بارش میں ٹِنڈا ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی دوسری کوشش کے دوران لاپتہ ہوگیا تھا، یہ حادثہ روس کے دور افتادہ علاقے، امور ریجن میں پیش آیا۔
???????????? BREAKING:
Wreckage of missing AN-24 plane carrying 49 people has been found 15 km from Tynda, Russia.
All passengers are feared dead from the crash. https://t.co/z1YxjD8lfN pic.twitter.com/c5XPd0i5QV
— SVS NEWS AGENCY (@svsnewsagency) July 24, 2025
یہ طیارہ خاباروفسک–بلاگوویشچینسک–ٹنڈا روٹ پر پرواز کر رہا تھا جب یہ غائب ہو گیا۔
ہنگامی امدادی حکام نے بدترین خدشات کی تصدیق اس وقت کی جب طیارے کے جلے ہوئے ملبے کو ایئرپورٹ سے 9 میل دور دریافت کیا گیا۔
وزارتِ ایمرجنسی کی جانب سے بتایا گیا کہ طیارے کا ڈھانچہ جل رہا تھا، جب Mi-8 ریسکیو ہیلی کاپٹر نے گھنے جنگلات اور پہاڑی علاقے میں کریش سائٹ کا پتہ لگایا۔
Bu gün Rusiyada qəzaya uğrayan təyyarənin görüntüləri yayımlanıb https://t.co/sF6UlE6lHr pic.twitter.com/D5mU4Qhayr
— Operativ Media (@operativmedia) July 24, 2025
تاحال کسی زندہ بچ جانے والے کے آثار نہیں ملے ہیں، روسی حکام نے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے حادثے کے مقام کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔