بلوچستان میں مارگٹ اور قلات میں بم دھماکے، سات افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس شہر سے تقریباﹰ 30 کلومیٹر (19 میل) دور مارگٹ چوکی نامی علاقے میں ایک سڑک کے کنارے نصب کردہ دیسی ساخت کا ایک بم پھٹنے سے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے چار پیراملٹری اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کی گاڑی جمعہ 25 اپریل کے روز وہاں سے گزر رہی تھی۔
ماہ رنگ بلوچ، پاکستان میں نسلی اقلیت کے لیے مزاحمت کا ایک چہرہ
بلوچستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے قوم پسند علیحدگی پسندوں کی مسلح کارروائیاں کافی زیادہ ہو چکی ہیں اور ملکی سکیورٹی دستے ان عسکریت پسندوں کے ہلاکت خیز حملوں کو روکنے اور ناکام بنانے کی مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔
(جاری ہے)
وفاقی وزیر داخلہ کا کوئٹہ میں بیاننیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کوئٹہ میں بتایا کہ مارگٹ چوکی میں پیراملٹری اہلکاروں کی ایک گاڑی کے ایک بم دھماکے کی زد میں آ جانے کے نتیجے میں چار نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
محسن نقوی نے کہا کہ ان سکیورٹی اہلکاروں کی ملک میں امن کے لیے قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اسی دوران ایک دوسرے واقعے میں، بلوچستان ہی میں قلات کے علاقے میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم پھٹنے سے تین افراد ہلاک ہو گئے، جو سب عام شہری تھے۔ یہ بم دھماکہ جمعرات کی شام ہوا۔
کیا نواز شریف مسئلہ بلوچستان کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں؟
قلات کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار جمیل بلوچ نے بتایا کہ حکام کو یقین ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے سڑک کے کنارے نصب کردہ اس بم کا ہدف مختلف تھا، مگر ٹارگٹ عام شہریوں کی ایک گاڑی بن گئی۔
اس ضلعی اہلکار کی اس بیان سے مراد یہ تھی کہ قلات میں ہائی وے کے کنارے بم نصب کرنے والے دہشت گرد سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانا چاہتے تھے مگر اس بم کے پھٹنے سے تین عام شہری مارے گئے۔
بلوچستان میں گزشتہ برس انتہائی ہلاکت خیزپاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی سرحدیں افغانستان اور ایران دونوں ہمسایہ ممالک سے ملتی ہیں۔
وہاں سرگرم کئی بلوچ علیحدگی پسند گروپ حالیہ کچھ عرصے سے اپنی خونریز کارروائیوں میں واضح اضافہ کر چکے ہیں۔پاکستان میں حملے: مارچ گزشتہ ایک دہائی کا مہلک ترین مہینہ
یہ مسلح گروپ بلوچستان میں ریاست، اس کے سکیورٹی اداروں اور سکیورٹی اہلکاروں پرحملے اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے بقول وفاق پاکستان اس صوبے میں قیمتی قدرتی وسائل کے ذخائر کو اپنے فائدے کے لیے استحصالی انداز میں استعمال کرتا ہے اور بلوچ عوام کو ان کے حقوق نہیں دیے جا رہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا پاکستان سے بلوچ کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ
اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق پچھلا سال گزشتہ تقریباﹰ ایک عشرے کے دوران پاکستان کے لیے سب سے ہلاکت خیز سال رہا تھا۔ 2024ء میں پاکستان میں سب سے زیادہ مسلح حملے افغانستان کے ساتھ ملک کی مغربی سرحد کے قریبی علاقوں میں کیے گئے۔
اس سال مارچ میں بلوچ لبریشن آرمی نامی علیحدگی پسند گروپ کے عسکریت پسندوں نے سینکڑوں مسافروں والی ایک ریل گاڑی کو روک کر اپنے قبضے میں لے لیا اور مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس واقعے میں درجنوں بلوچ علیحدگی پسند اور مسافر مارے گئے تھے، جن میں کئی ایسے سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے، جو ڈیوٹی پر نہیں تھے اور گھروں کو جا رہے تھے۔
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سکیورٹی اہلکار علیحدگی پسند بلوچستان میں کے کنارے کے لیے
پڑھیں:
بھارت: آندھرا پردیش کے مندر میں بھگدڑ، 9 افراد ہلاک، 18 زخمی
بھارت (ویب ڈیسک) جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں ایک ہندو مندر میں زائرین کے ہجوم کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 9 افراد ہلاک اور 18 زخمی ہو گئے۔خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ پون کلیان نے بتایا کہ یہ حادثہ اُس وقت پیش آیا، جب زئراین سری کاکولم شہر کے سری وینکٹیشورا سوامی مندر میں مند ایکادشی (ہندو مذہب میں مبارک دن) کے موقع پر بڑی تعداد میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔پون کلیان نے اپنے بیان میں کہا کہ افسوسناک واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں گی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ مندر نجی افراد کے زیرِ انتظام تھا، نائب وزیراعلیٰ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 9 ہے۔
آندھرا پردیش کے گورنر ایس۔ عبدالنذیر نے بھگدڑ میں 9 یاتریوں کی ہلاکت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ریاستی وزیر انم راما نارائنا ریڈی نے بتایا کہ تقریبا 25 ہزار زائرئن مندر میں جمع ہوگئے تھے، جبکہ مندر کی گنجائش صرف 2 ہزار افراد کی تھی، جس کے باعث یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا، ضلعی حکام کو زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ضلع سری کاکولم کے کلیکٹر اور مجسٹریٹ سواپنل دنکر پنڈکر کے مطابق اب تک 18 زخمیوں کی اطلاع ملی ہے، جن میں سے 2 کی حالت نازک ہے۔وزیرِاعظم نریندر مودی نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری پیغام میں اعلان کیا کہ حکومت ہلاک شدگان کے لواحقین کو 2300 ڈالر (تقریبا 6 لاکھ 40 ہزار بھارتی روپے) اور زخمیوں کو 570 ڈالر ( تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے) بطور معاوضہ ادا کرے گی۔
واضح رہے کہ بھارت میں بڑے مذہبی اجتماعات اور میلوں میں بھگدڑ کے واقعات عام ہیں، ستمبر میں تمل ناڈو میں ایک مشہور اداکار سے سیاست دان بننے والے وِجے تھلاپتی کی انتخابی ریلی میں بھگدڑ مچنے سے کم از کم 36 افراد ہلاک ہوئے تھے۔جون میں ساحلی ریاست اوڈیشا میں ایک ہندو تہوار کے دوران اچانک ہجوم بڑھ جانے سے بھگدڑ مچی تھی، جس میں کم از کم 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے، گزشتہ ماہ مغربی ریاست گوا میں مشہور ’آگ پر چلنے‘ کی مذہبی رسم کے دوران ہزاروں افراد کے جمع ہونے سے 6 افراد کچل کر ہلاک ہوگئے تھے۔جنوری میں شمالی شہر پریاگ راج میں ہندوؤں کے مذہبی کمبھ میلے کے دوران صبح سویرے ہونے والی بھگدڑ میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔