اوپن اے آئی کا نیا ویب براؤزر گوگل کروم کے لیے چیلنج کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اوپن اے آئی نے گوگل کروم کو چیلنج کرنے کے لیے نیا AI ویب براؤزر متعارف کرانے کی تیاریاں مکمل کر لیں۔
یہ بھی پڑھیں:سیم آلٹ مین نے اوپن اے آئی خریدنے کی ایلون مسک کی پیشکش ٹھکرادی
ایلون مسک کی حمایت یافتہ کمپنی OpenAI مستقبل کے انٹرنیٹ براؤزنگ کے نقشے کو بدلنے جا رہی ہے۔ معروف عالمی اداروں رائٹرز، دی ورج، اور بزنس انسائیڈر کے مطابق یہ براؤزر چیٹ جی پی ٹی طرز کے انٹرفیس پر کام کرے گا۔صارفین روایتی سرچ کی بجائے AI کے ذریعے براہِ راست معلومات حاصل کر سکیں گے۔
رپورٹس کے مطابق یہ نیا براؤزر گوگل کی اشتہاری اجارہ داری کو سخت چیلنج دے گا۔ OpenAI نے گوگل کے سابق اعلیٰ افسران کو ٹیم میں شامل کر لیا ہے۔ کمپنی پہلے ہی AI ڈیوائس اسٹارٹ اپ I/O کو 6.
یہ بھی پڑھیں:مسئلہ گروک، سیاسی شعور یا تجزیے کے لیے کیا اے آئی کا استعمال ٹھیک ہے؟
The Verge کے مطابق ایک عدالتی سماعت کے دوران OpenAI نے عندیہ دیا کہ اگر موقع ملا تو وہ گوگل کروم کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کے تحت صارف روایتی یو آر ایل کی بجائے سوال کرے گا اور AI پوری ویب پر اس کا جواب تلاش کرے گا۔ گوگل کروم پر انحصار کرنے والے مارکیٹ کو OpenAI کا یہ براؤزر ممکنہ طور پر ہلا کر رکھ سکتا ہے۔ اس منصوبے کو ڈیجیٹل دنیا میں AI انقلاب کا اگلا بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق براؤزر کی آزمائشی ریلیز جلد شروع کی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گوگل کے مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
OPENAI اوپن اے آئی ایلون مسک گوگل گرومذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوپن اے ا ئی ایلون مسک گوگل گروم اوپن اے ا ئی گوگل کروم کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
غیر ریاستی عناصر کے خلاف مشترکہ چیلنج
پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی داخلی جنگ لڑ رہا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی آج بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے خطرہ ہے، ماضی کو بھول کر اب بھارت اور پاکستان کو جامع مذاکرات کی طرف آنا ہوگا، دونوں ملکوں کے لیے اس مشترکہ چیلنج سے نکلنے کا راستہ تعاون ہی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مدلل انداز اختیار کر کے پاکستانی موقف اور زمینی حقائق کو موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ دوران انٹرویو انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ تمام مسائل بات چیت سے حل کرنے کا خواہاں ہے، تاہم کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے عمل کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔
یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ہی ہیں جنھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حقیقی بات چیت کے دروازے بند کیے ہیں، کیونکہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد اعتماد کا فقدان بڑھ جاتا ہے، کوئی بھی ریاست سفارتی پیش رفت کرنے سے پہلے اپنے عوام کا تحفظ اور اپنی سالمیت کی حفاظت چاہتی ہے۔ یہ رویہ مذاکراتی عمل کو سست یا بے معنی بنا دیتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی کا گہرائی میں اگر غور کریں تو اس کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک ’’ نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ یعنی غیر ریاستی قوتیں ہیں۔ یہ وہ گروہ، تنظیمیں یا نیٹ ورکس ہیں جو کسی بھی حکومت اور عوام کی نمایندگی نہیں کرتے، مگرغیرقانونی دولت کے انبار کی بنا پر بے پناہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے ریاستوں کی حدود، قوانین اور طاقت کے دائرے سے باہر جا کر کارروائیاں کرتے ہیں۔
ان اقدامات کا دائرہ صرف لوکل یا علاقائی سطح تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ خطے کی مجموعی سلامتی، معاشی ترقی، انسانی حقوق اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب یہ گروہ خود مختار انداز میں کارروائی کرتے ہیں اور سرحد پار حملے کرتے ہیں، جیسے کہ متعدد بار دونوںملکوں کے اندر دہشت گردانہ واقعات کا ہونا، تو دونوں ریاستیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں کہ دوسری ریاست نے ان گروہوں کو تحفظ فراہم کیا یا انھیں سرحد پار کارروائی کی اجازت دی۔
بھارت کے مطابق اس طرح کے حملے پاکستان کے زیر انتظام علاقوں سے کیے جاتے ہیں، جب کہ پاکستان کے مؤقف میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اندرونِ ملک دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے اور کچھ ایسے واقعات میں بھارت کی جانب سے جعلی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ریاست خود اپنے داخلی نمایندوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہی تو نان اسٹیٹ ایکٹرز کے اقدامات کی ذمے داری بین الاقوامی سطح پر سیاسی قیمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2008 کے ممبئی حملے جنھوں نے بھارت میں سخت ردعمل برانگیختہ کیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت اور تعلقات بند ہو گئے۔یوں عدم اعتماد کی فضا زیادہ بڑھ گئی۔ پاکستان نے عالمی سطح پر خود کو دہشت گردی کے خلاف موقف اختیار کرنے والی ریاست کے طور پر پیش کیا جس نے نیو کاؤنٹر ٹیرر ازم پالیسیز اور متعدد محفوظ اغوا اور عدالتی کارروائیاں کیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ عسکری رد عمل اختیار کریں، جس سے عوام میں خوف، انتہا پسندی اور عسکری حل کی مانگ پھیلتی ہے۔
یہ گروہ خانہ جنگی، گولہ باری، کار بم دھماکے، عبادت گاہوں پر حملوں، تشدد کے واقعات وغیرہ جیسے اقدامات کرتے ہیں جو نہ صرف جغرافیائی حدود بلکہ ظاہری حقیقت پر مبنی امن کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ان کی کارروائیاں عسکریت پسندوں کو پناہ گاہ فراہم کرتی ہیں، ان کی فنڈنگ اور تربیت کا ذریعہ بنتی ہیں اور سیاسی طاقتور حلقوں کو مجبورکرتی ہیں کہ وہ عسکری یا سفارتی ردعمل اختیار کریں۔ نتیجتاً دونوں طرف کی ریاستیں سرحدی نگرانی کو مضبوط کرتی ہیں،نرم حکمت عملی چھوڑ کر سختی اختیار کرتی ہیں اور عوام کو خوف میں مبتلا رکھنے کے لیے اقدامات اٹھاتی ہیں۔
یہ تمام ردعمل علاقے میں توازن کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جب ریاست مسلسل عسکری قوت کا اظہار کرتی ہے تو اس کا اثر عوام پر، کاروبار پر اور عالمی شراکت داریوں پر پڑتا ہے۔ لوگوں کی نقل و حمل محدود ہو جاتی ہے، سرحدی تجارتی راستے بند کیے جاتے ہیں، یا سخت سنسر شپ نافذ ہوتی ہے۔ جب جبلتاً ریاستوں کے درمیان یہی خوف، شک اور عسکری آمادگی غالب ہوجاتی ہے۔ میڈیا حساس ہو جاتا ہے، بیانیہ عسکری تشدد یا سلامتی پر مرکوز ہوتا ہے، اور سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو ٹرمپ کارڈ کی طرح استعمال کرتی ہیں تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھا سکیں۔جیسا کہ بھارت میں بی جے پی کر رہی ہے۔
کئی بار عالمی و بین الاقوامی تنظیمیں، جیسے اقوام متحدہ یا اسلامی تعاون تنظیم، اس صورتحال میں ثالث بننے کی کوشش کرتی ہیں، مگر چونکہ یہ گروہ خود مختار ہیں اور ریاستوں کے روایتی اصولوں کے مطابق کنٹرول میں نہیں آتے، تو عالمی ثالثی کا دائرہ بھی محدود رہ جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ریاستیں خود تنظیموں کے خلاف داخلی اقدامات مضبوط کریں، اطلاعات کا تبادلہ کریں، سرحد پار نگرانی بڑھائیں اور ایک مشترکہ وقار قائم کریں کہ کسی بھی نان اسٹیٹ ایکٹر کو ریاستی تشخص یا سیاسی فائدہ پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اگر ہم سنجیدگی سے امن چاہتے ہیں، تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنا یا ان کا دائرہ محدود کرنا ہے۔ یہ صرف عسکری طاقت سے ممکن نہیں، بلکہ معلومات، اشتہاری نشریات، انٹیلیجنس اطلاعات، اور باخبر معاشرتی و تعلیمی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے، اگر بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے مشترکہ انٹیلیجنس شیئرنگ، فوجی رابطہ فورمز اور سرحد کے معاملات میں شفافیت اختیار کریں، تو نان اسٹیٹ گروہوں کے لیے آزادانہ حملے خفیہ یا سہولت سے نہیں ہو سکیں گے۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک روشن بات یہ ہے کہ اب دنیا بھر میں میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز، اور معروف شخصیات دونوں ممالک کے مفاد میں امن کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ وہ عسکری پیشگوئی کے بجائے انسانی داستانوں اور ثقافتی تبادلے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
یہ نقطہ آغاز نوجوان نسل کے بجائے عام آدمی کی سطح پر امن فضا پیدا کر سکتا ہے۔ جب عوام کو احساس ہو کہ کشمیر کے مسائل، سرحدی کشیدگی، یا ملک گیر تشدد کا بہترین حل عسکری نہیں بلکہ مذاکرات، معاشی شراکت داری اور مشترکہ ترقی ہے، تو ریاستیں بھی اس رجحان کے مطابق فیصلے کریں گی۔پاکستان کو دہشت گرد ریاست کے طور پر نامزد کرنے کا بھارتی سفارتی منصوبہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والا نہیں ہے کیونکہ بھارت کے رہنما عالمی سطح پر اسی بیانیے کو استعمال کر رہے ہیں جو سخت گیر ہندو حامیوں کے لیے بی جے پی کے گھریلو بیانیہ کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کے سامعین بین الاقوامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں جیسے بی جے پی کو اندرونِ ملک مل جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا بیانیہ بھارت اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں عالمی سوچ سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے جو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مسائل کے پُرامن اور مذاکرات کے ذریعے حل اور کثیر ریاستی تعاون پر زور دیتا ہے۔
بھارت عالمی سطح پر اپنے پاکستان مخالف مباحثے کی پذیرائی نہ ملنے سے تکلیف محسوس کرتا ہے۔ بھارتی سرکاری حلقوں کے سخت بیانات مئی میں اپنے فوجی دھچکے پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو فوجی محاذ آرائی میں دوبارہ شامل کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں، لہٰذا ان حالات میں امریکا کے زیر اہتمام جنگ بندی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ تسلیم کریں کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی موجودگی یا رہنمائی کسی ریاست کے لیے باعثِ فخر نہیں بلکہ شرمندگی کی بات ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں جو نقصان ہوتا ہے، وہ صرف سرحدی جھڑپوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ ’’ اعتماد کا نقصان‘‘ ہوتا ہے، جب ریاستیں داخلی طاقت، قانون، عدل اور مشترکہ ترقی کے آئیڈیل پر کام کرنے لگتی ہیں، تو نان اسٹیٹ ایکٹرز خود بخود طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب پوری دنیا تیزی سے معاشی تعاون کی طرف بڑھ رہی ہے، جب کہ ریاستیں وسعتِ نظری اور مشترکہ اقدار پر غور کر رہی ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی گرہیں کھولنے کا راستہ ہے جہاں نان اسٹیٹ ایکٹرز کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی اور دوستانہ ترقی خطے کی پہچان بن جائے گی۔پاکستان نے تو ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتاہے، اب بھارت کو اس کا جواب دینا ہے۔ ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی سے دونوں طرف کے غربت، مہنگائی اور صحت و تعلیم کے مسائل میں گھرے لوگ متاثر ہوئے ہیں، دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے کہ آپس میں تعلقات کو بہتر بنایا جائے ہمیں باہمی اعتماد کو فروغ دینا ہے۔ خطے میں معاشی ترقی کے لیے امن ضروری ہے غربت اور بیماری کو اس خطے کا مقدر نہیں ہونا چاہیے۔