بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان مکمل تصادم کا خطرہ ہے، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان مکمل تصادم کا خطرہ ہے۔
برطانوی ٹی وی سکائی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ دنیا کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ دونوں جوہری طاقتوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تصادم کے نتائج سنگین اور تباہ کن ہوسکتے ہیں، پاکستان کی فوج ہر صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت تنازع: ہم کراچی سے گلگت تک ہائی الرٹ ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
خواجہ آصف نے مقبوضہ کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے حوالے سے بھارت کے پاکستان پر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس واقعے کو بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے کوئی بھی جارحیت ہوئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا اور اس کی قیمت بھارت کو چکانی پڑے گی۔
پاکستانی فوج ممکنہ اشتعال یا لڑائی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے؟اس سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ہم پہلے ہی تیار ہیں ہمیں تیاری کی ضرورت نہیں، ہم کسی بھی قسم کے واقعے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر الزام لگانا بہت آسان، ہمارے پاس بھارت کیخلاف بہت سے ثبوت ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ انڈیا میں پاکستان کی جانب سے دراندازی ناممکن ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک کی سرحد پر سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فوجی کھڑے ہیں۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے حوالے سے وزیر دفاع نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاہدہ زندہ رہے۔ ’یہ معاہدہ ایک کامیاب معاہدہ ہے، ہم اس کے لیے ورلڈ بینک کے پاس جائیں گے، پانی کا حصول ہمارا حق ہے اور انڈیا نے اس کو معاہدے میں تسلیم کیا ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news بھارت پاکستان تصادم جنگ جوہری طاقت خواجہ آصف وزیردفاع.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان جوہری طاقت خواجہ ا صف وزیردفاع وزیر دفاع خواجہ خواجہ ا صف نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا
برطانیہ اور بھارت نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کردیئے، جس کے تحت ٹیکسٹائل سے لے گاڑیوں تک کی اشیا پر محصولات کم کیے جائیں گے اور کاروباری اداروں کو زیادہ مارکیٹ رسائی حاصل ہوگی۔
دونوں ممالک نے مئی میں اس تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کی تھی، یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کرنے نے عالمی تجارت کو متاثر کر رکھا ہے۔
دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتوں کے درمیان طے پانے وال یہ معاہدہ 2040 تک دوطرفہ تجارت میں مزید 25.5 ارب پاؤنڈ (34 ارب ڈالر) کے اضافے کا ہدف رکھتا ہے۔
یہ برطانیہ کا یورپی یونین سے 2020 میں علیحدگی کے بعد سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ہے، اگرچہ اس کے اثرات یورپی یونین سے علیحدگی کے اثرات کے مقابلے میں محدود ہوں گے۔
بھارت کیلئے یہ کسی ترقی یافتہ معیشت کے ساتھ اس کا سب سے بڑا اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہے، جو مستقبل میں یورپی یونین کے ساتھ ممکنہ معاہدے اور دیگر خطوں سے مذاکرات کے لیے ایک نمونہ فراہم کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ توثیقی عمل کے بعد نافذ العمل ہوگا جو ممکنہ طور پر ایک سال کے اندر مکمل ہوگا۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ’بڑے فوائد‘ لائے گا اور تجارت کو سستا، تیز تر اور آسان بنائے گا۔
انہوں نے کہاہم ایک نئے عالمی دور میں داخل ہو چکے ہیں، اور یہ وہ وقت ہے جب ہمیں پیچھے ہٹنے کے بجائے گہری شراکت داریوں اور اتحاد بڑھا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
نریندر مودی نے کہا کہ یہ دورہ ’دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دونوں ممالک نے دفاع اور ماحولیاتی شعبوں میں شراکت داری پر بھی اتفاق کیا اور جرائم کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
معاہدے کے تحت شراب پر عائد محصول فوری طور پر 150 فیصد سے کم ہو کر 75 فیصد ہو جائے گا، اور آئندہ دہائی میں بتدریج کم ہو کر 40 فیصد تک آ جائے گا۔
برطانوی حکومت کے مطابق بھارت گاڑیوں پر محصولات کو ایک کوٹہ نظام کے تحت 100 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرے گا۔ اس کے بدلے بھارتی مینوفیکچررز کو بالخصوص الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے شعبے میں برطانیہ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوگی۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بھارت کی 99 فیصد برآمدات بشمول ٹیکسٹائل پر برطانیہ میں کوئی محصول نہیں لگے گا، جبکہ برطانیہ کے 90 فیصد ٹیرف لائنز میں کمی کی جائے گی، اور برطانوی کمپنیوں کو اوسطاً 15 فیصد کے بجائے صرف 3 فیصد محصول ادا کرنا پڑے گا۔