پہلگام واقعے پر پاکستان کیساتھ بڑی جنگ نہیں ہوسکتی، بھارتی تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
بھارتی ٹی وی چینلوں اور انڈیا کی انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفاتر میں جمعہ کے روز طبل جنگ بجایا جارہا تھا، تاہم پرسکون آوازیں بھی آن لائن پورٹلز پر جگہ تلاش کر رہی تھیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق بھارت کے ایک تجربہ کار، دفاعی تجزیہ کار نے واضح وجوہات پیش کیں کہ پہلگام سانحے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی گرم جنگ کیوں نہیں ہو سکتی، حالانکہ سیاسی فائدے کے لیے اس جنگ کا بہانہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر موجودہ جنگ بندی متاثر ہوسکتی ہے، اور سرحدوں پر مقامی کسانوں کا امن خراب کرنے کے لیے دونوں طرف سے فائرنگ دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔
دوطرفہ اور علاقائی امن کے نقطہ نظر سے معقول اور تسلی بخش آوازوں میں سابق بھارتی فوجی افسر اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی بھی شامل تھے۔
انہوں نے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کئی عوامل پیش کیے کہ کوئی جنگ نہیں ہوسکتی، ان میں سے سب سے اہم چین کا عنصر ہے۔
پروین ساہنی نے کہا کہ اگست 2019 میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی متنازع ریاست کی حیثیت میں تبدیلی نے پاکستان سے زیادہ چین کو ناراض کیا ہے۔
اپریل 2020 میں ہندوستان اور چین کے فوجیوں کے درمیان گلوان میں پر تشدد لڑائی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پروین ساہنی نے نشاندہی کی کہ چینی سرحد پر بہت زیادہ فوجی تعینات ہیں، اور بھارت کے لیے انہیں فوری طور پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنگ کے شادیانے جلد خاموش ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نایاب ہندو رہنما ہیں، جو جنگ کا بہانہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کی سیاست کے مطابق ہے۔
نیوز پورٹل نے نوٹ کیا کہ مودی جمعرات کو بہار میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے، اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے، جہاں حکومت نے پہلی بار انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی واحد بیرونِ ملک موجودگی سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ تاجکستان نے بھارتی فوج جو دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع آینی ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے۔ نئی دہلی نے تاجکستان میں اپنی اس موجودگی کو “اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا تھا۔ اب اس اڈے کا مکمل کنٹرول روسی افواج نے سنبھال لیا ہے جبکہ بھارت کے تمام اہلکار اور سازوسامان 2022 میں واپس بلا لیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق بھارت اور تاجکستان کے درمیان 2002 میں ہونے والا معاہدہ چار سال قبل ختم ہوا، اور تاجکستان نے واضح طور پر بھارت کو اطلاع دی کہ فضائی اڈے کی لیز ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ تاجک حکومت کو روس اور چین کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ “غیر علاقائی طاقت” یعنی بھارت کو مزید اپنے فوجی اڈے پر برداشت نہ کرے۔
آینی ایئربیس بھارت کے لیے نہ صرف وسطی ایشیا میں قدم جمانے کا ذریعہ تھی بلکہ پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی کا ایک حصہ بھی تھی۔
یہ فضائی اڈہ افغانستان کے واخان کاریڈور کے قریب واقع ہے جو پاکستان کے شمالی علاقے سے متصل ہے۔ بھارتی فضائیہ نے ماضی میں یہاں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ بوقتِ جنگ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
مگر اب روس اور چین کی شراکت سے بھارت کی یہ تمام منصوبہ بندی خاک میں مل چکی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق تاجکستان کا یہ فیصلہ بھارت کے لیے ایک بڑا اسٹریٹجک دھچکا ہے، کیونکہ اس اڈے کے ذریعے بھارت وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی ظاہر کر رہا تھا۔ تاہم، اب روس اور چین اس خلا کو پر کر چکے ہیں اور بھارت مکمل طور پر خطے سے باہر ہو گیا ہے۔
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آینی ایئربیس کا بند ہونا بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ ہماری اسٹریٹجک سفارت کاری کے لیے ایک اور زبردست جھٹکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت محض دکھاوے کی خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ تاجکستان کے اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اس خطے میں اب روس اور چین کا مکمل تسلط ہے، اور بھارت کے پاس نہ کوئی اسٹریٹجک بنیاد بچی ہے اور نہ کوئی مؤثر اثرورسوخ بچا ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ بھارتی عزائم کے لیے ایک سبق ہے کہ غیر ملکی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی کوششیں صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں آپ کے پیچھے کھڑی ہوں، اور اس وقت بھارت کو نہ واشنگٹن کا مکمل اعتماد حاصل ہے اور نہ ماسکو یا بیجنگ کا۔
یوں تاجکستان سے بھارتی فوج کا انخلا دراصل نئی دہلی کی “عظیم طاقت بننے” کی خواہش پر کاری ضرب ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک واضح سفارتی فتح ہے، کیونکہ خطے میں بھارت کے تمام تر اسٹریٹجک منصوبے ایک ایک کر کے ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔