امریکی صدر ٹرمپ کا پاک بھارت کشیدگی پر ردعمل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
واشنگٹن:مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ردعمل سامنے آ گیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کریں کیونکہ ان کے درمیان کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو خود ہی حل کر لیں گے۔ ان کے درمیان ہمیشہ سے بڑی کشیدگی رہی ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ وہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کو جانتے ہیں مگر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ وہ ان سے براہ راست رابطہ کریں گے یا نہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں حالیہ حملے کے بعد خطے میں تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ بیس سالوں میں اپنی نوعیت کا بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کی ہے جسے پاکستان نے مسترد کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے جبکہ پاکستان نے بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔ تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا، “ان دونوں ممالک کے درمیان 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے تو آپ جانتے ہیں، یہ ہمیشہ سے رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت، دونوں کے “بہت قریب” ہیں لیکن کشمیر کے تنازع پر ان کا براہ راست مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال ہے اور ہم اس پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا فی الحال کشمیر کی حیثیت پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی موجودہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکا اس تنازعے میں ثالثی کی بجائے دونوں فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل سفارتی اور پرامن طریقے سے خود حل کریں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان
پڑھیں:
ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
واشنگٹن:امریکا کے وزیر توانائی کرس رائٹ نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جو ایٹمی تجربات کا حکم دیا گیا ہے، ان میں فی الحال ایٹمی دھماکے شامل نہیں ہوں گے۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں امریکی وزیر توانائی اور ایٹمی دھماکوں کا اختیار رکھنے والے ادارے کے سربراہ کرس رائٹ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس وقت جن تجربوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سسٹم ٹیسٹ ہیں اور یہ ایٹمی دھماکے نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں ہم نان-کریٹیکل دھماکے کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں ایٹمی ہتھیار کے تمام دیگر حصوں کی جانچ شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور ایٹمی دھماکا کرنے کی صلاحیت کو فعال کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربے نئے سسٹم کے تحت کیے جائیں گے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے تیار ہونے والے متبادل ایٹمی ہتھیار پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہوں۔
کرس رائٹ نے کہا کہ ہماری سائنس اور کمپیوٹنگ کی طاقت کے ساتھ، ہم انتہائی درستی کے ساتھ بالکل معلوم کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے میں کیا ہوگا اور اب ہم یہ جانچ سکتے ہیں کہ وہ نتائج کس صورت میں حاصل ہوئے اور جب بم کے ڈیزائن تبدیل کیے جاتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
قبل ازیں جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا فوری حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایٹمی تجربے کی آغاز کی دھمکی پر روس نے بھی خبردار کردیا؛ اہم بیان
ڈونلڈ ٹرمپ سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا ان تجربات میں وہ زیر زمین ایٹمی دھماکے بھی شامل ہوں گے جو سرد جنگ کے دوران عام تھے تو انہوں نے اس کا واضح جواب نہیں میں دیا تھا۔
یاد رہے کہ امریکا نے 1960، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔