اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ: کراچی کے تاجر نے امپورٹڈ اشیا کی فروخت روک دی
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، جس کے خلاف پاکستان میں اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ جیسے جیسے اسرائیلی جارحیت میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ویسے ہی بائیکاٹ کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کراچی کے تاجر محمد اویس نے بھی اپنے دکان پر امپورٹڈ اشیا کی فروخت روک دی ہے۔
محمد اویس کا کہنا ہے کہ اس سے قبل جو اشیا ان کی دکان پر موجود ہیں وہ بھی فروخت نہیں کریں گے اور خراب ہونے کی صورت میں پھینک دی جائیں گی۔
محمد اویس کی دکان پر جہاں امپورٹڈ اشیا رکھی گئی ہیں وہاں کراس کا نشان لگا دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اشیا قابل فروخت نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہر آئٹم کا متبادل ہمارے ہاں موجود ہے، اور شہری خوشی سے لوکل یا اسلامی ممالک کی اشیا کا مطالبہ کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیلی پراڈکٹس اسلامی ممالک بائیکاٹ تاجر کراچی متبادل محمد اویس وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی ممالک بائیکاٹ تاجر کراچی محمد اویس وی نیوز محمد اویس
پڑھیں:
تعلیم برائے فروخت
کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار وہاں کے تعلیمی نظام پر منحصر ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخلے اسی لیے دلواتے ہیں تاکہ اُن کے بچے آگے جا کر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ کردارکے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور اپنے ملک کی ترقی کا سبب بھی بنیں، ایسے ہی اسکولوں میں بھی بچوں کو تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
اساتذہ طلبہ کو اچھی تعلیم دینے کے ذمے دار ہوتے ہیں جس سے آگے جا کر وہی طلبہ اپنے ملک کے معمار بنتے ہیں۔ بے شک تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم ایک قابل فروخت حقیقت بنتی جا رہی ہے جہاں معیار تعلیم دولت سے جڑا ہوا ہے۔
پاکستان میں موجود ہ تعلیمی نظام پر پرائیویٹ اسکولوں کا راج ہے۔ پاکستان میں پرائیویٹ اسکولز ایسو سی ایشن ہونے کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود پرائیویٹ اسکول اپنے اپنے حساب سے تعلیمی نظام چلا رہے ہیں۔ جیسا کہ کئی نجی اسکولوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے کے داخلے کے وقت پہلے والدین کی تعلیم اور اُنکا انٹرویو بھی لیا جاتا ہے جب کہ اگر والدین پڑھے لکھے نہ ہوں یا اُن کے اسکول کے معیار پر بچے کے والدین پورا نہ اُتریں تو بچے کو بھی داخلہ نہیں دیا جاتا۔
مطلب اگر کوئی والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں تو اُنکے بچے بھی اچھے اور معیاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ایسے ہی تعلیمی اداروں نے پاکستان میں تعلیم کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا ہے جیسا کہ اے لیول، اولیول، کیمبرج اسکول سسٹم اور دیگر ایسے ہی کئی نظام رائج ہیں جن پر تکیہ کر کے پرائیویٹ اسکولز اپنے کاروبار چمکا رہے ہیں۔
ذرایع کے مطابق اس وقت پاکستان میں 198000 کے قریب پرائیویٹ اسکولز رجسٹرڈ ہیں، جن میں 200,00000 طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے گلی محلوں میں اسکول کھولے گئے ہیں یا اُن میں زیر ِ تعلیم طلبا کی شماریات کہیں درج ہی نہیں ہے۔
ایسے ہی مختلف اسکولوںمیں تعلیمی نظام بکھرا پڑا ہے جسکی وجہ بٹا ہوا تعلیمی نظام ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کو چلانیوالوں نے جہاں تعلیمی نظام کو بانٹا ہے وہیں تعلیم کی قیمتیں بھی لگا رکھی ہیں، مختلف اسکولوں کی مختلف فیسیں ہیں، کسی کی کم تو کسی کی زیادہ تو کچھ اسکول کی بہت زیادہ۔ جیسے گلی محلوں میں کھولے جانے والے اسکولوں کی اُس علاقے کے حساب سے فیسیں ہیں، پھر شہر کے بورڈز سے تعلق رکھنے والے اسکولوں کی فیسیں مختلف ہوں گی، جب کہ نامور اسکولوں نے جو غیر ملکی نظام تعلیم چلا رکھے ہیں ایسے اسکولوں تک ہر شخص کی رسائی تو ممکن ہی نہیں ہے۔
ان اسکولوں کی فیسیں لاکھوں روپے ماہانہ ہوتی ہیں جب کہ ان اسکولوں میں صرف اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے یا گلی محلوں کے نجی اسکولوں کی فیسیں کچھ کم ہوں گی اُن کی فیسیں بھی ماہانہ 5000 سے کم نہیں ہیں۔
جنکی ادائیگی والدین کو بہت مہنگی پڑتی ہے، جب کہ نجی اسکولوں نے والدین کو لوٹنے کے نت نئے طریقے اپنا رکھے ہیںجو صرف ماہانہ فیسوں پرہی ختم نہیں ہوتے، داخلے کے وقت میں داخلہ فیس، تعلیمی سال کے شروع ہونے پر سالانہ فیس، ٹیوشن فیس، سیکیورٹی ڈیپوزٹ، کاپیوں، کتابوں اور اسکول یونیفارم بھی اسکولوں سے ہی لینے کی شرط، پھر سال بھرمیں اسکولوں میںمنائے جانے والے مختلف دنوں کے اخراجات جیسے گرمی کی شروعات ہونے پر سمر ڈے، سردی کی شروعات پر ونٹر ڈے، رنگوں، پھولوںاور پھلوں کے دن، کھیلوں کے دن اور اُن کھیلوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے یونیفارمزکی خریداری کے اخراجات، مختلف تہواروں کو منانے کے لیے الگ اخراجات، جیسے عید ملن پارٹی، ویلکم پارٹی، فئیر ویل پارٹی کے نام پر لی جانیوالی رقوم، پھر پکنک کے نام پر لی جانیوالی اچھی خاصی رقم۔
حتی کہ سال بھر میں بچوں کے استعمال کی اسٹیشنری بھی اسکولوں سے ہی خریدنی پڑتی ہے، جب کہ اسکول انھی اشیاء کو مارکیٹ کی نسبت زیادہ مہنگی کر کے بیچتے ہیں۔
اُس پر بھی نجی اسکولوں کا والدین کو لوٹنے سے پیٹ نہیں بھرتا تو گرمی کی ہونے والی تعطیلات یعنی جون، جولائی کی فیسوں کے ذریعے والدین کی جیب کو خالی کیا جاتا ہے۔ پھر گرمیوں کی تعطیلات میں نجی اسکول انھی اسکولوں میں سمر کیمپ کی شکل میں ایک اور بڑا خرچہ والدین کی نذر کر دیتے ہیں چاہے حالانکہ یہ والدین پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ اپنے بچوں کو اس کیمپ میں بھیجنے کے لیے آمادہ ہوتے بھی ہیں یا نہیں لیکن زیادہ تر بچوں کے والدین اسکولوں کے زور دینے پر بچوں کو سمر کیمپ میں بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پھر یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا مہنگی فیسوں سے بہترین تعلیم کی ضمانت ملتی ہے؟ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ مہنگے اسکولوں کی ہزاروں روپے فیسیں بھی اچھی اور معیاری تعلیم کی ضمانت نہیں دے سکتیں کیونکہ پاکستان کے نجی اسکولوں کا تعلیمی نظام بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان اسکولوں میں میٹرک، انٹریا بہت ہوا تو گریجویٹ کیے ہوئے اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ پر رکھا جاتا ہے، جو سالوں سے نسل در نسل پڑھائے جانے والے نصاب کی پرانی کاپیوں سے دیکھ کر طلبا کو بورڈ پر کام لکھوا دیتے ہیں،
ایسے اساتذہ کو تعلیمی سال کے ختم ہونے سے پہلے جماعت کا نصاب پورا کروانے کی جلدی ہوتی ہے، بچوں کو جماعت میں نصاب کی دہرائی اور صرف رٹے لگوائے جاتے ہیں، پھر چاہے بچوں کو سمجھ آئے یا نہیں اس بات سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور جو چیز اساتذہ کو خود سمجھ نہیں آتی وہ گھر کے لیے کام دے دیا جاتا ہے۔ نصاب میں کوئی جدیدتبدیلی نہیں ہوتی تو بچے بھی پھر صرف نصاب کو رٹہ لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایسے نصاب بچوں کو تعلیم سے دور کرنے اور اُنکی تعلیمی دلچسپی میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اسکولوں کے اساتذہ کا اسکول کے ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھانے پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اساتذہ ایسے طلبہ کو خاص توجہ دیتے ہیں جو اُن کے پاس ٹیوشن پڑھنے آتے ہیں جس سے فیورازم پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرے بچے کی زیادہ قابلیت یا زیادہ نمبر آتے ہوئے بھی اُن کے نمبرز کاٹ لیے جاتے ہیں اور بچے کا رینک کم کر دیا جاتا ہے۔
جب کہ ایسے کئی دیگر معاملات اور تبدیلیاں ہیں جو کہ نجی اسکولوں میں ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے سبسڈی والے نجی اسکولوں کا قیام بھی ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ حکومتی سطح پر ایسے پیشہ ورانہ اور جدید اسکولوں کا قیام بھی ہونا چاہیے جہاں امیر ہو یا غریب سب کے لیے مساوی تعلیمی مواقعے میسر ہوں جس سے ترقی اور خوشحالی کا راستہ بھی ممکن ہو سکے گا۔
اسکولوں میں جب ایسے سخت قوانین ہوں گے تو زیادہ طلبہ کے لیے قابل رسائی بھی ممکن ہو سکے گی، جب کہ لوگوں کا تعلیم کی جانب رجحان بھی بڑھے گا۔ نظامِ تعلیم کے بہتر ہونے سے بیرونِ ممالک پڑھنے کے لیے جانے والے طلبہ بھی اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کر سکیں گے جب کہ جیسے چند سال قبل بیرون ممالک سے لوگ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے ویسے ہی پاکستان کے معیارِ تعلیم کو دیکھتے ہوئے دوبارہ بیرونِ ممالک سے طلبہ پاکستان میں پڑھنے آسکیں گے۔ جس سے ملک کا معاشی نظام بھی بہتر ہو گا اور ملک پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔