دیا مرزا کی والدہ ہندو اور باپ کرسچن لیکن ان کا سرنیم مسلمانوں جیسا کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
اداکارہ دیا مرزا کی زندگی کے کئی پہلو عوام کی نظر سے اوجھل رہے ہیں جن میں ان کا خاندانی پس منظر اور ذاتی جدوجہد شامل ہیں۔
اداکارہ دیا مرزا نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کا اصل نام ‘دیا ہینڈرچ’ تھا جو ان کے جرمن نژاد والد فرینک ہینڈرچ سے منسوب تھا۔ ان کی والدہ، دیپا، بنگالی نژاد انٹیریئر ڈیزائنر ہیں۔ دیا کے والدین کی علیحدگی کے بعد ان کی والدہ نے حیدرآبادی مسلمان احمد مرزا سے شادی کی جنہوں نے دیا کو اپنی بیٹی کی طرح پالا۔
دیا نے بتایا کہ نو سال کی عمر میں اپنے سگے والد کے انتقال کے بعد ان کے سوتیلے والد احمد مرزا نے ان کی زندگی میں والد کا کردار ادا کیا۔ اسی لیے جب انہوں نے مس انڈیا مقابلے میں حصہ لیا تو اپنے سوتیلے والد کے نام ‘مرزا’ کو اپنایا۔
دیا مرزا نے 2001 میں فلم ‘رہنا ہے تیرے دل میں’ سے بالی ووڈ میں قدم رکھا اور اس کے بعد متعدد فلموں میں اداکاری کی۔ ان کی ذاتی زندگی میں بھی کئی اتار چڑھاؤ آئے، جن میں 2019 میں اپنے شوہر ساحل سنگھا سے علیحدگی شامل ہے۔ تاہم، انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔
دیا مرزا کی کہانی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ایک شخص اپنے خاندانی پس منظر اور ذاتی تجربات کو اپناتے ہوئے اپنی شناخت بناتا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دیا مرزا
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔