بھارتی نائب صدر کے طیارے کی روم سے دہلی آتے ہوئے طویل مسافت، فی پرواز لاکھوں کے اخراجات
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی ایئر لائنز کا فلائٹ آپریشن بدستور مشکلات کا شکار ہے جبکہ اضافی مسافت سے پروازوں کے آپریشنل اخراجات میں فی پرواز لاکھوں کا اضافہ ہوگیا۔
طویل فاصلے کی پروازوں میں دہلی امرتسر آمد کی 33 پروازوں میں 2 سے 9 گھنٹے کی تاخیر ہو رہی ہے جبکہ نجی ایئرلائن کی دہلی الماتے کی پروازیں 6ای 801 اور 6ای 802 تیسرے روز بھی منسوخ کر دی گئی۔
بھارتی نائب صدر کو روم سے دہلی واپس لے جانے والی خصوصی پرواز نے بھی طویل مسافت طے کی۔
نیویارک، ٹورنٹو، ویانا اور لندن سے دہلی کی 8 پروازیں 3 سے 9 گھنٹے تاخیر کا شکار ہیں جبکہ دمام، فرینکفرٹ، برمنگھم، پیرس اور میلان سے دبئی کی پروازیں بھی تاخیر کا شکار ہوگئیں۔
ایمسٹرڈم، کوپن ہیگن، واشنگٹن اور شکاگو سے دہلی کی پروازیں بھی غیرمعمولی تاخیر کا شکار ہیں۔ تبلیسی، پیرس، جدہ، دوحہ اور تاشقند سے دہلی کی پروازوں میں بھی 2 سے 7 گھنٹے تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔ طویل روٹ سے لندن اور دبئی سے امرتسر کی پروازوں میں بھی دو گھنٹے تک تاخیر ہوئی۔
بھارتی فضائیہ کو فضائیہ بندش کی وجہ سے لانگ روٹس کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے، لانگ روٹس کی مد میں بھارتی فضائیہ کے ایندھن کی مد میں اخراجات اور سفر کا دورانیہ بھی بڑھ گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تاخیر کا شکار پروازوں میں سے دہلی
پڑھیں:
فضائی حدود کی بندش، مسافر بھارتی ایئر لائنز چھوڑ کر دیگر کو ترجیح دینے لگے
بھارتی ایئر لائنز کی مختلف پروازوں کے دورانیے میں 2سے 4گھنٹے کا اضافہ ہو گیا
تین روز میں بھارتی ایئر لائنز کی 250 سے زیادہ پروازیں متاثر ہوئیں، رپورٹ
بھارتی فضائی کمپنیوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کے باعث 3روز کے دوران بھارتی ایئر لائنز کی 250 سے زیادہ پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔پروازوں کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بھارتی اور غیر ملکی مسافر انڈین ایئر لائنز کو چھوڑ کر دیگر ایئر لائنز کے ٹکٹ خرید رہے ہیں ۔شہری ہوا بازی کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کی وجہ سے بھارتی ایئر لائنز کی پروازوں کے دورانیے میں 2 سے 4 گھنٹے کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ امریکا برطانیہ اور یورپی ملکوں سمیت طویل فاصلے کے روٹس پر بھارتی ایئر لائنز کی پروازیں 2 سے 10 گھنٹے تاخیر کا بھی شکار رہیں۔اضافی فیول، ایئرپورٹ پارکنگ چارجز، ہوٹل اخراجات کی مد میں بھی بھارتی ایئرلائنز کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ نئی دلی، ممبئی امرتسر سے امریکا، کینیڈا، برطانیہ کی پروازیں گھنٹوں تاخیر کا شکار ہیں۔ایوی ایشن ذرائع کا بتانا ہے کہ پروازوں کی غیر یقینی صورتحال کی سبب بھارتی اور غیر ملکی مسافر بھارتی ایئرلائنز کو چھوڑ کر دیگر ایئر لائنز کے ٹکٹ لے رہے ہیں۔ پروازوں کیلئے اضافی ایندھن، انجینئرنگ کے اضافی اخراجات، ایئرپورٹ پارکنگ چارجز اور ہوٹل اخراجات کی مد میں بھی بھارتی ایئرلائنز کو اضافی اخراجات کا سامنا ہے ۔گھنٹوں کی تاخیر کی شکار پروازوں میں نئی دلی، ممبئی اور امرتسر سے آپریٹ ہونے والی امریکہ ،کینیڈا، برطانیہ کیلئے پروازیں شامل ہیں۔جرمنی، ڈنمارک، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ کیلئے پروازیں بھی گھنٹوں تاخیر کا شکار ہیں۔ سعودیہ، بحرین ،مسقط، باکو، شارجہ اور دبئی کیلئے بھارتی پروازوں کو بھی فیول کے اضافی اخراجات اور اضافی وقت کا سامنا ہے ۔ اخراجات میں اضافے کے علاوہ بھارتی ایئر لائنز کے عملے کو ڈیوٹی ٹائم میں اضافے اور آرام میں کمی کی مشکلات کا بھی سامنا ہے ، پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے متاثر ہونے والی ایئر لائنز میں 5 بھارتی کمرشل ایئر لائنز سمیت خصوصی اور چارٹرڈ پروازیں شامل ہیں۔ایوی ایشن ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھارتی ایئر لائنز اپنے کرایوں میں 20 فیصد اضافہ کر سکتی ہیں، پاکستان کی اسٹریٹیجک لوکیشن کے باعث بھارتی ایئر لائنز کی مغرب کی جانب جانے والی پروازوں کو پاکستان پر سے گزرنا ہوتا ہے ۔ پاکستانی فضائی حدود کے استعمال سے ایندھن اور کم فلائٹ ٹائم سے بھارتی ایئر لائنز کی بچت ہوتی ہے ۔امریکی ویب سائٹ "ایئرویز میگزین” کے مطابق، 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد جب پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کی تھی تو بھارتی ایئر لائنز کو 26 فروری سے 2 جولائی تقریبا پانچ ماہ کے دوران 2019 کے دوران 540 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً 65 ملین امریکی ڈالر) سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔اس مدت کے دوران صرف ایئر انڈیا کو اکیلے تقریباً 491 کروڑ روپے (تقریباً 59 ملین امریکی ڈالر) کا نقصان ہوا۔ اسپائس جیٹ کو 30.73 کروڑ روپے (تقریباً 3.7 ملین امریکی ڈالر) کا اور انڈیگو کو 25.1 کروڑ روپے (تقریباً 3.0 ملین امریکی ڈالر)، گو ایئر کو 2.1 کروڑ روپے (تقریباً 260,000 امریکی ڈالر) کا نقصان ہوا۔ جبکہ "انڈین ایکسپریس” کی رپورٹ کے مطابق، مجموعی نقصانات 700 کروڑ بھارتی روپے (تقریباً 84 ملین امریکی ڈالر) سے بھی زیادہ تھے ۔