بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
جیکب آباد میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ جامعۃ المصطفیٰ خاتم النبیین (ص) میں عوامی رابطہ دفتر قائم کیا جا رہا ہے، جہاں ہمارے معزز ساتھی عوامی مسائل کے حل کیلیے ہمہ وقت موجود رہینگے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ملک بھر میں سنگین مسائل نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے، جبکہ ہمارے نمائندے عوامی مسائل سے مکمل طور پر لاتعلق ہوکر کرپشن اور ملکی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ انہوں نے یہ بات المرتضی کالونی جیکب آباد میں عوامی مسائل کے حل کے لئے عوامی رابطہ دفتر کے افتتاح کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ افتتاح کے موقع پر آل ڈومکی اتحاد کے مرکزی رہنماء حاجی شاہ مراد ٹومکی، استاد عبدالفتاح ڈومکی، مجلس علمائے مکتبِ اہل بیت کے ضلعی صدر علامہ سیف علی ڈومکی، مدرسہ جامعۃ المصطفیٰ خاتم النبیین کے مدرس مولانا ارشاد علی سولنگی، رحم دل خان ٹالانی، منصب علی ڈومکی، زوار غلام مصطفیٰ، استاد رفیق ڈومکی، مولانا منور حسین سولنگی اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔
دفتر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب عوام کی خدمت ہمارا نصب العین ہے۔ آج ملک بھر میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی اور لاقانونیت جیسے سنگین مسائل نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ افسوس کہ عوام کے منتخب نمائندے عوامی مسائل سے مکمل طور پر لاتعلق ہوکر کرپشن اور ملکی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ نہ بیوروکریسی کو عوامی مسائل سے دلچسپی ہے، نہ اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کو ان سے سروکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ غربت اور افلاس کے مارے عوام چوری، ڈکیتی اور بدامنی کا شکار ہیں۔ شہر کی سڑکیں اور راستے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ شریف شہری کاروبار نہیں کر سکتے۔ سندھ میں ڈاکو اور ان کے سرپرست بھتے کی پرچیاں بھیج کر عوام کو خوفزدہ کر رہے ہیں، جبکہ حکومت اور انتظامیہ ڈاکوؤں کے سامنے بے بس بے حس اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ ان حالات میں جامعۃ المصطفیٰ خاتم النبیین (ص) میں عوامی رابطہ دفتر قائم کیا جا رہا ہے، جہاں ہمارے معزز ساتھی عوامی مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت موجود رہیں گے۔ عوامی رابطے کے لیے ذمہ داران کے نمبرز بھی مشتہر کیے جا رہے ہیں تاکہ ہر شخص کسی بھی وقت اپنا مسئلہ بیان کر سکے۔ ہم خلوص دل سے عوام کی خدمت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے مخلص تنظیمی دوستوں پر فخر ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم عوام کی آواز بنیں گے اور عوامی توقعات اور امنگوں پر پورا اتریں گے۔ اس موقع پر تقریب سے استاد عبدالفتاح ڈومکی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جدوجہد کے نتیجے میں ہمارے دوست کی چھینی گئی موٹر سائیکل بازیاب ہوئی۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے وارڈ نمبر تین کے مختلف محلوں کا دورہ کیا اور عوام سے ملاقات کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود علی ڈومکی نے عوامی مسائل کرتے ہوئے نے کہا کہ میں عوام عوام کی
پڑھیں:
توہینِ مذہب کے مقدمات میں پاگل پن کا دفاع
توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملزم کے وکیل کی جانب سے عام طور پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے، اور یہ کہ ایک عام آدمی سے ایسے افعال یا الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
عام طور پر ایسے مقدمات میں یہ استدعا بھی کی جاتی ہے کہ ایسے ذہنی مریضوں کو سزا دینے کے بجائے انھیں مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ تاہم، یہ ساری باتیں کسی اور جرم، مثلاً قتل، تسلسل سے قتل کرنے والے افراد (سیریل کلرز) یا دہشتگردی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہیں کہ ’نارمل‘ انسان تو یہ جرائم بھی نہیں کرتے۔ تو کیا اسی دلیل کی بنیاد پر قاتلوں، سیریل کلرز اور دہشتگردوں کو بھی سزا نہ دی جائے اور ان کا طبی و نفسیاتی علاج کیا جائے؟
کچھ لوگ تو اس کے بھی قائل ہیں کہ کسی کے مجرم ہونے کا سبب بھی اس کے ’جینز‘ ہوتے ہیں ؛ س نظریے کو ’جینیاتی تقدیر‘ (genetic determinism) کا نظریہ کہا جاتا ہے؛ تو کیا اس نظریے کی بنیاد پر جزا و سزا کا پورا نظام ہی ختم کردیں؟
پاگل پن کے عذر کے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟مجموعۂ ضابطۂ فوجداری ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمہ چلانے سے روکتا ہے جو ’غیر متوازن ذہن‘ (unsound mind) کا حامل ہو اور جو اپنی صفائی پیش کرنے کے قابل نہ ہو؛ دفعہ 464، ذیلی دفعہ 1 طے کرتی ہے:
’جب کوئی مجسٹریٹ کسی انکوائری یا مقدمے کی سماعت کر رہا ہو اور اُسے یقین ہو جائے کہ ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور وہ اپنی صفائی دینے کے قابل نہیں ہے، تو وہ اس ذہنی عدم توازن کے معاملے کی تحقیق کرے گا، اور اس شخص کا معائنہ ضلع کے سول سرجن یا ایسے دیگر میڈیکل آفیسر سے کروائے گا جس کی ہدایت صوبائی حکومت دے، اور پھر اُس سرجن یا آفیسر کو بطور گواہ طلب کرے گا، اور اس بیان کو تحریر کرے گا۔‘
اگر مجسٹریٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم اپنی صفائی پیش کرنے کے قابل نہیں ہے، تو’وہ مقدمے کی کارروائی مؤخر کر دے گا۔‘ مزید یہ کہ اگر تفتیش یا مقدمہ زیرِ التوا ہو، تو ایسے ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ مناسب ضمانت فراہم کی جائے کہ: ”اس کا مناسب خیال رکھا جائے گا اور اسے خود کو یا کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے سے روکا جائے گا، اور جب مجسٹریٹ یا عدالت یا اس کے مقرر کردہ افسر کے سامنے حاضری کی ضرورت ہو تو وہ پیش کیا جائے گا۔‘
مزید برآں، مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان ایسے شخص کو عمومی رعایت دیتا ہے جو ’غیر متوازن ذہن‘ کا حامل ہو، مگر اس رعایت کے استعمال کے لیے ایک بلند معیار مقرر کرتا ہے۔ چنانچہ دفعہ 84 میں طے کیا گیا ہے:
”ایسا کوئی فعل جرم نہیں ہے جو ایسا شخص کرے، جو اس فعل کے وقت ذہنی عدم توازن کے باعث نہ تو فعل کی نوعیت کو جانتا ہو اور نہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ کوئی غلط یا قانون کے خلاف کام کر رہا ہے۔“
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ضابطۂ فوجداری میں جو طریقہ کار بیان کیا گیا ہے وہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب مقدمے کے دوران میں ملزم کے ذہنی توازن خراب ہونے کا عذر پیش کیا جائے، خواہ جرم کے ارتکاب کے وقت وہ صحیح الدماغ ہو۔ ایسی صورت میں کارروائی اس وقت تک مؤخر کی جاتی ہے جب تک کہ ملزم کا ذہنی توازن بحال نہ ہو جائے اور عدالت یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اپنی صفائی دینے کے قابل ہے۔ اس کے برعکس مجموعۂ تعزیرات کے تحت فوجداری قانون یہ بنیادی اصول طے کرتا ہے کہ جب جرم کے وقت ملزم ذہنی طور پر غیر متوازن ہو تو قانون کی نظر میں اس کی مجرمانہ ذمہ داری موجود ہی نہیں ہوتی، یعنی اس کے فعل کو جرم کہا ہی نہیں جاسکتا۔
قانون میں پاگل پن کا تصور علمِ نفسیات سے مختلف ہےالبتہ اس بحث میں یہ نکتہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ’پاگل پن‘ (insanity) کا عذر ایک قانونی اصطلاح ہے، اور یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ اس کا وہی مفہوم لیا جائے جو ماہرینِ نفسیات نے اس اصطلاح کے لیے علمِ نفسیات کے تحت طے کیا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص ماہرینِ نفسیات کی اصطلاح کے مطابق غیر متوازن ذہن کا حامل ہو لیکن اس کی جو کیفیت ہو اسے قانون جرم کی سزا سے بچنے کے لیے کافی عذر تسلیم نہ کرے۔
پاکستان کی عدالتیں عمومی طور پر قانونی دیوانگی کے تعین کے لیے M’Naghten Rules پر عمل کرتی ہیں۔ ان قواعد کے مطابق درج ذیل صورتوں کو پاگل پن قرار دے کر ملزم کے دفاع کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا:
کہ ملزم جو فعل کر رہا تھا، وہ اس کے عقائد یا خیالات کے مطابق اخلاقی طور پر درست تھا؛
کہ ملزم اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پایا؛
کہ ملزم کو’واہموں‘ یا ’تخیلات‘ نے دھوکے میں ڈالا تھا۔
ان میں بالخصوص تیسری صورت ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ قانون کے درمیان متنازعہ ہے، اور پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں توہینِ مذہب کے مقدمات میں اسی تیسری صورت کو عذر کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔
مقدمہ خواب دیکھنے کا تھا یا لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا؟توہینِ مذہب کے کئی مقدمات میں واہموں (delusions) کا عذر کس حد تک قابلِ قبول ہوسکتا ہے، اس موضوع پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 2022ء میں ایک اہم فیصلہ دیا تھا۔ مقدمے کا عنوان تھا ’نصراللہ خان بمقابلہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر، تھانہ صدر، میانوالی‘ (2022 LHC 7503)۔
اس مقدمے میں جسٹس شیخ کے سامنے ملزم کی جانب سے ضمانت کی درخواست آئی تھی اور درخواست گزار پر الزام تھا کہ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہواؤں میں اُڑ سکتا ہے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اور صحابہ کرام کو خواب میں دیکھتا ہے۔ کہا گیا کہ ایسے بیانات نے عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور یہ بیانات تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔
جسٹس شیخ نے مقدمے کے حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد قرار دیا کہ ان دعووں سے نہ تو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-اے کا جرم (دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنا) اور نہ ہی دفعہ 298-اے کا جرم (توہینِ صحابہ) ثابت ہوتا ہے۔ انھوں نے سگمنڈ فرائیڈ، کارل یونگ اور دیگر ماہرینِ نفسیات کے نظریات پر بحث کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ: ’کسی شخص کو اس بات پر سزا نہیں دی جا سکتی کہ اُس نے خواب میں کیا دیکھا یا اُس نے اُن خیالات، مشاہدات یا جذبات کو دوسروں کے سامنے کیوں بیان کیا۔‘
یہ نتیجہ نکالتے وقت جسٹس شیخ نے اس بات کو نظرانداز کر دیا کہ ملزم پر مقدمہ صرف خواب دیکھنے یا خواب بیان کرنے پر نہیں دائر کیا گیا، بلکہ اس پر الزام یہ تھا کہ اس کے بیانات نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، جو ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صرف ٹرائل کورٹ ہی مکمل شواہد کی جانچ کے بعد حتمی رائے دے سکتی تھی، اور اس سوال پر ہائیکورٹ اپنی ’رِٹ درخواستوں کے اختیارِ سماعت‘ کے تحت فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔
پاگل پن کا عذر استثنا ہے، نہ کہ قاعدہ۔جسٹس شیخ نے مزید ’مینیا اور شیزوفرینیا‘ کے اثرات پر تبصرہ کیا، اور واہموں پر ایک طویل گفتگو کے بعد اسے ملزم کے ’منصفانہ سماعت کے حق‘ کے ساتھ جوڑتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی:
’جب کوئی پولیس افسر کسی جرم کی تفتیش کرے، خاص طور پر تعزیراتِ پاکستان کے پندرھویں باب (جو مذہب کے خلاف جرائم سے متعلق ہے) کے تحت، تو اُسے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ملزم صحیح الدماغ ہے یا نہیں۔ اگر اُسے ذہنی بیماری کا شک ہو، تو وہ متعلقہ فورم سے ملزم کا نفسیاتی معائنہ کروانے کے لیے رجوع کرے۔‘
جسٹس شیخ نے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں کل بیماریوں کے بوجھ کا 4 فیصد سے زیادہ ذہنی عوارض پر مشتمل ہے اور 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کو نفسیاتی نگہداشت کی ضرورت ہے۔
یہاں بھی جسٹس شیخ نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ قانون میں پاگل پن کا تصور اور نفسیات میں ذہنی عارضے کا تصور دو الگ چیزیں ہیں۔ انھوں نے یہ قانونی اصول بھی نظرانداز کر دیا کہ دیوانگی ایک استثنا (exception) ہے، اور فوجداری قانون میں ہر استثنا کی طرح اس کا بارِ ثبوت پر بھی اس فریق پر ہے جو اس استثنا سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
جسٹس شیخ نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابقہ فیصلے (’دلشاد حسین بنام ریاست‘) کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل جج کو چاہیے کہ وہ ازخود ایسے اقدامات کرے جو کسی ملزم کو تحفظ فراہم کریں اگر ملزم یہ نہ سمجھ سکتا ہو کہ اُس کا عمل غلط یا غیر قانونی تھا، خواہ ملزم یا اُس کا وکیل خود یہ دفاع پیش نہ کریں۔ تاہم جسٹس شیخ نے یہ بات نظر انداز کی کہ مذکورہ مقدمے میں پہلے ہی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ جرم کے وقت ملزم پاگل تھا، مگر اس کے باوجود ٹرائل جج نے مقدمہ چلایا تھا۔ موجودہ مقدمہ اس مقدمے سے مختلف تھا کیونکہ اس مقدمے میں ملزم کا قانونی لحاظ سے ابھی پاگل ثابت نہیں ہوا تھا۔
اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے ججوں کی آئینی و قانونی ذمہ دارییہ امر بھی افسوسناک ہے کہ جسٹس شیخ نے خوابوں کی تعبیر اور ان کے اثرات پر فرائیڈ، یونگ وغیرہ کی آراء کو تو پیش کیا مگر اسلامی اصولوں سے رہنمائی لینے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ عدالتوں پر یہ لازم ہے کہ وہ تمام موجودہ قوانین کی تعبیر قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں کریں، جیسا کہ آئین کی دفعہ 227 اور قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4 میں صراحت کے ساتھ عدالتوں پر لازم کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے جتنا وقت فرائڈ اور یونگ وغیرہ کے نظریات سمجھنے میں لگایا، اس سے آدھا وقت بھی وہ اسلامی تراث کے مطالعے میں صرف کرتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ فقہ و اصولِ فقہ میں تفصیل سے جنون کی مختلف قسموں اور مدارج کا تفصیلی تجزیہ موجود ہے اور فقہائے کرام نے نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ ذہنی عدم توازن کب اور کس حد تک سزا کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے جج کب مغربی نظریات کے بجائے اسلامی اصولوں کی روشنی میں قوانین کی تعبیر و تشریح کے متعلق اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کرنے کی طرف توجہ دیں گے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔