قانونی تنازعات، ناقص کارکردگی،سرمایہ کاروں کی کے الیکٹرک میں دلچسپی ختم
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 اپریل ۔2025 )کراچی الیکٹرک کمپنی میں انتظامی کنٹرول اور کارکردگی کے سنگین مسائل کے پیش نظر سرمایہ کار وں کی کمپنی میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے بین الاقوامی ادارے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک کی کارکردگی اور موجودہ صورتحال پر جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کے الیکٹرک قانونی تنازعات اور مسلسل خراب کارکردگی سے دوچار ہے ساتھ ساتھ قانونی کشمکش میں بھی الجھی ہوئی ہے یہ قانونی تنازع سعودی سرمایہ کاروں اور پاکستانی سرمایہ کاروں کے درمیان کمپنی کے انتظامی کنٹرول کے سبب ہے .
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق شیئر کم ہونے کے باوجود کمپنی کا مکمل کنٹرول سعودی سرمایہ کاروں نے سنبھال رکھا ہے جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو کے الیکٹرک کے بورڈ میں بھی بیٹھنے نہیں دیاجارہا، سعودی سرمایہ کار اب مبینہ طور پر حکومت پاکستان اور اسپیشل انویسمنٹ فنانشل کونسل(ایس آئی ایف سی) کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں. رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ دوسری جانب کے الیکٹرک کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے متعلق ایک بیرونی خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح کے الیکٹرک اپنی اندرونی نا اہلیوں کو پورا کرنے کیلئے کراچی کے صارفین پر اضافی مالی بوجھ ڈال رہی ہے. فنانشل ٹائمز کے مطابق کے الیکٹرک بجلی کی پیداوار سمیت بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے پر کام کرنے میں ناکام رہی مالیاتی کارکردگی کے لحاظ سے، کراچی اسٹاک ایکسچینج انڈیکس کے مقابلے میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کے الیکٹرک کے اسٹاک کی قیمت کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ کاروں کا کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ سے اعتماد اٹھ چکا ہے. کے الیکٹرک حکومت کا ایک بڑا اسٹیک ہولڈر ہے تاہم کے الیکٹرک سے حکومت کوئی ڈیویڈنڈ نہیں ملا ہے اور کے الیکٹرک کے اسٹاک کی قیمت نہیں بڑھی رپورٹ کے مطابق درحقیقت حکومت ہر سال کے الیکٹرک کو تقریبا 200 بلین سبسڈی فراہم کررہی ہے یہ بڑے پیمانے پر سبسڈیز جزوی طور پر اسٹریٹجک قیادت کی کمی اور ناقص انتظام کی وجہ سے ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر کے الیکٹرک کو قانونی تنازعات، مبینہ غیر قانونی کنٹرول اور انتظامیہ کی مسلسل ناقص کارکردگی کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامناہے اس صورت حال نے نہ صرف سرمایہ کاروں کو دور کر دیا ہے بلکہ کراچی کے شہریوں پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں متعلقہ حکام کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرمایہ کاروں کے الیکٹرک رپورٹ میں کے مطابق
پڑھیں:
کراچی کی مردم شماری میں شہری آبادی کی شمولیت وکلاء کی جدوجہد کا ثمر ہے، خالد مقبول صدیقی
چیئرمین ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 140-A کے تحت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں جیت چکے ہیں، مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جس پر اب توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کرنے یا دیگر قانونی راستے اختیار کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مرکز بہادرآباد سے متصل پارک میں چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیرِ صدارت لیگل ایڈ کمیٹی اور لائرز فورم کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں آئندہ کی قانونی حکمتِ عملی، مردم شماری میں شہری علاقوں کی نمائندگی، لاپتا افراد، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور آئینی حقوق کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، انیس احمد قائم خانی، سید امین الحق، مرکزی رہنما سید شاکر علی، اراکین قومی اسمبلی، ایڈووکیٹ صوفیہ سعید، ایڈووکیٹ حسان صابر، حفیظ الدین ایڈووکیٹ، لیگل ایڈ کمیٹی کے مرکزی انچارج محمد جیوانی و اراکین، لائرز فورم کے انچارج سعید اختر و اراکین بھی شریک تھے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وکلاء کی کاوشوں سے کراچی کے شہری علاقوں کی دو کروڑ آبادی کو مردم شماری میں شامل کرانے میں کامیابی ملی اور اب ہماری کوشش ہے کہ آئندہ مردم شماری پانچ سال بعد ہو تاکہ باقی رہ جانے والے افراد کو بھی سرکاری ریکارڈ میں شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کا مسئلہ اب بھی موجود ہے اور ہمیں قانونی نکات پر بیٹھ کر مشاورت کرنی ہے تاکہ ان افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جا سکے۔ چیئرمین ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 140-A کے تحت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں جیت چکے ہیں، مگر تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، جس پر اب توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کرنے یا دیگر قانونی راستے اختیار کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں عدالتی اور قانونی نظام میں مقامی وکلاء کی مؤثر نمائندگی کا فقدان ہے، جسے دور کرنے کے لیے وکلاء کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا کہ اس وقت ملک اور بالخصوص شہری سندھ کو ایک منظم، مربوط اور آئینی قانونی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنان برسوں سے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں، اور ان کے مقدمات میں قانونی معاونت کے لیے سینئر وکلاء کی مدد ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خود ایک قانونی و آئینی جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا، اور آج جب شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں تو ہمیں بھی ایک نئی آئینی جنگ کا آغاز کرنا ہوگا۔