منفرد تعلیمی ادار وں کے بانی کی مثالی خدمات
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
لاہور شاہدرہ میں ادارہ معارف القران اور جامع مسجد فضیلت کا سنگ بنیاد رکھنے کی خبر سننے کے بعد اس خاکسار نے رابط کر کے نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے پر انہیں مبارکباد پیش کی،گذشتہ روز ان سے ملاقات ہوئی تو میرا ان سے پہلا سوال ہی یہ تھا کہ ’’مولانا‘‘ اب تک کتنی مسجدیں ،ادارے اور قرآنی مکاتیب قائم کر چکے ہیں؟انہوں نے سوچتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں 15مساجد اور ادارہ معارف القرآن کی 8 برانچیں قائم ہیں،ادارہ معارف القرآن کے شعبوں میں قرآن کریم کا شعبہ سب سے بڑی اہمیت کا حامل ہے،شعبہ درس نظامی میں طلبا ء کی تعلیم درجہ سابعہ تک ہے جبکہ طالبات کو مکمل درس نظامی کا کورس کروایا جاتا ہے، انہوں نے بتایا کہ ادارے کے زیر اہتمام ایک بچیوں اور دو بچوں یعنی طلبا ء کے لئے تین ہائی سکول بھی قائم ہیں،ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں تین سو حفظ کی کلاسیں قائم ہیں،انکے قائم کردہ سکولوں میں زیر تعلیم بچیوں کو مکمل اسلامی ماحول فراہم کیا جاتا ہے،انگلش کی معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کی اعلیٰ تعلیم بھی دی جاتی ہے ،بچیوں کو شرعی پردے کی اہمیت اور موبائل سمیت سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے دجل اور فریب کاریوں سے بھی آگاہی فراہم کی جاتی ہے ،فی زمانہ قوم کے بچوں اور بچیوں کی اخلاقی تربیت کی جتنی آج ضرورت ہے محسوس ہوتی ہے ،اتنی شائد پہلے کبھی محسوس نہ ہوئی ہو،وزارت تعلیم کی موجودگی میں ملک کے تعلیمی اداروں سے تعلیم غائب،تربیت تو سرے سے تھی ہی نہیں اور اب تو تعلیمی ادارے نشہ کرنے کے اڈے اور گرل فرینڈ بواے فرینڈز بنا نے کی کارخانے بن چکے ہیں،ان حالات میں خادم قرآن مولانا عبدالوحید کی سرپرستی میں قائم ادارہ معارف القرآن کی برانچوں اور سکولوں میں قوم کے ہزاروں بچے اور بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔
قرآ ن کریم کے ماہرین اور ملک کے جید قراء کرام ادارہ معارف القرآن میں بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کے ایک خاص اسلوب اور منفرد انداز سے نہ صرف یہ کہ متاثر بلکہ اس منفرد انداز کو متعارف کر وانے پروہ مولانا عبد الوحید کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں، کمال یہ ہے کہ مولانا عبدالوحید کی خدمات صرف دینی اور عصری علوم کو پھیلانے تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان کی کی رفاہی خدمات بھی آزاد کشمیر سے لے کر ملک کے چاروں صوبوں تک پھیلی ہوئی ہیں ،انہوں نے اس خاکسار کو بتایا کہ ملک کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے جن علاقوں میں پانی موجود نہیں ہے اور لوگ پانی کے لیے ترستے ہیں وہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ کنویں کھدوانے بلکہ بورنگ کروانے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ،غریب اور نادار بچیوں کی شادیوں کے انتظام کرنا،ملک میں جب بھی کوئی افت آئی، وہ سیلاب کی صورت میں ہو، زلزلے کی صورت میں ہو یا کسی وبائی صورت میں، ہو ،انہوں نے اپنے فلاحی ادارے کے تحت ان علاقوں کے لاکھوں لوگوں کو بنیادی ضرورتوں سے لے کر مکانات کی تعمیر تک ،اپنا بھرپور کردار ادا کیا،مولانا عبدالوحید انتہائی سلجھے ہوئی مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں،ان کی شخصیت کو تاریخ نے نہیں،بلکہ انہوں نے اپنی علمی عملی اور فلاحی خدمات کی ایک بے مثال تا ریخ مرتب کی۔
دنیا میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں تاریخ ساز اور عہدساز کہاجاتا ہے۔خادم قرآن مولانا عبدالوحید بھی انہی تاریخ ساز شخصیات میں شامل ہیں۔ 1965ء میں آزاد کشمیر کے علاقے تراڑکھل میں پیدا ہوئے اور بنیادی تعلیم اپنے علاقے ہی میں حاصل کی بعدازاں جامعہ فاروقیہ کراچی سے دورہ حدیث کی سند حاصل کی اور کراچی ہی میں ادارہ معارف القرآن کے نام سے ادارہ قام کرکے اپنی خدمات کا آغاز کیاادارہ معارف القرآن کی بنیاد اپریل 1992ء میں اکابر علماء کے ہاتھوں رکھی گی ،ایک چھوٹی سی مسجد سے شروع ہونے والا یہ ادارہ مولانا کی محنت و لگن سے اب 8 مراکز ، 300 قرآنی کلاسز اور 15 مساجد تک جا پہنچا ہے تو یہ سب اللہ پاک کا ان پر خاص فضل وکرم ہے ۔
کراچی کی علمی و دینی فضائوں میں ادارہ معارف القرآن کا نام ایک عظیم دینی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس تحریک کے بانی و مہتمم، مولانا عبدالوحید کے قائم کردہ مدارس میں حفظ قرآن کریم کا جو اعلیٰ معیار اپنایا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے اداروں میں نہ صرف قرآن مجید کو خوبصورتی سے حفظ کروایا جاتا ہے بلکہ طلبہ کے اخلاق و کردار کی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ آج ان مدارس کے فارغ التحصیل حفاظ دین کی خدمت کے ساتھ دنیا کے مختلف گوشوں میں قرآن کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ادارہ معارف القرآن مولانا عبدالوحید انہوں نے قرآن کی ہیں ان ملک کے
پڑھیں:
اسپرنگ برڈ اسکول لیاقت آباد میں خواتین ٹیچرز جنسی ہراسانی کی شکار
اسکول کا مالک شرافت علی تعلیم سے نابلد، خواتین اساتذہ کو ہراساں کرنے میں ملوث
متاثرہ فردوس فاطمہ نامی ٹیچر سے بدتمیزی، تھپڑ رسید، وزیرتعلیم سے شکایت کا نتیجہ نہ نکلا
لیاقت آباد فیڈرل کیپٹل ایریا میں وفاقی حکومت کے ملازمین کو الاٹ کیے جانے والے سرکاری کوارٹرز کی زمین پر مزار کے برابر ناجائز قبضہ کر کے قائم کردہ اسپرنگ برڈ اسکول کی انتظامیہ کے خلاف کافی عرصہ سے اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ اسکول میں میٹرک پاس ناتجربہ کار اساتذہ تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور اسکول میں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ۔حاصل معلومات کے مطابق انتہائی کم اجرت پر فی میل ٹیچرز سے کام لیا جاتا ہے اور انہیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اسکول کا مالک شرافت علی تعلیم سے نابلد ہے، جرأت کے پاس موجود شواہد اور قابل اعتبار گواہیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسکول مالک مبینہ طور پر خواتین اساتذہ کو ہراساں کرنے بدتمیزی سے پیش آنے اور غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے۔ جس کے باعث اسکول میں زیر تعلیم بچوں اور بچیوں پر غلط اثر پڑ رہا ہے۔ فردوس فاطمہ نامی متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ دوستی سے انکار پر شرافت علی نے مجھے تھپڑ رسید کر دیا جس پر میں نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کروا دی پھر اسلحہ بردار غنڈہ عناصر نے میرے گھر میں گھس کر مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا
شروع کر دی ہیں۔میں نے وزیر تعلیم سردار شاہ سے اسکول کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی کہ ایسے اسکول جہاں اساتذہ کے ساتھ نازیبا حرکات کی جارہی ہوں وہاں بچوں بچیوں کا مستقبل خطرے میں ہو،اسے جلد سے جلد منسوخ کیا جائے۔ تمام ثبوت دیکھنے کے بعد وزیر تعلیم نے اسکول کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی مگر دلچسپ امر یہ ہے خطیر رقوم کی بندر بانٹ کے بعد اسکول کی رجسٹریشن 2025منظور کرلی گئی ہے ۔متاثرہ خاتون کا ارباب اختیار سے مطالبہ ہے کہ استاد کے مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے شرافت علی کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لا کر بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔