پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کا 6روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، پولیس کے حوالے
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کا 6روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، پولیس کے حوالے WhatsAppFacebookTwitter 0 29 April, 2025 سب نیوز
لاہور(سب نیوز) انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی کارکن صنم جاوید کا 6 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں گرفتار ملزمہ صنم جاوید کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر سماعت ہوئی، پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کو پیش کیا گیا اور ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی۔عدالت نے سماعت کے بعد پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے صنم جاوید کا 6 روزہ ریمانڈ منظور کرلیا اور انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج منظر علی گل نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ ملزمہ صنم جاوید کے وکیل نے اپنی موکلہ کو رہا کرنے کی استدعا کر رکھی تھی، صنم جاوید کے خلاف تھانہ اسلام پورہ پولیس نے مقدمہ درج کر رکھا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز صنم جاوید اور ان کے شوہر کو لاہور کے علاقے گرین ٹاون سے گرفتار کیا گیا تھا۔تحریک انصاف کی متحرک کارکن صنم جاوید اور اس کے خاوند کو 9مئی کے جلاو گھیراو کے مقدمات میں انویسٹی گیشن پولیس تھانہ اسلام پورہ نے گرفتار کیا تھا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآئندہ 15روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان آئندہ 15روز کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس، بی آئی ایس پی کے تحت سرکاری ملازمین کی بیگمات پنشنرز اور انکے اہل خانہ کوبھی ادائیگیوں کا انکشاف پی ٹی اے کا اسٹارلنک کو فوری لائسنس جاری نہ کرنے کا فیصلہ مقبوضہ کشمیرکی قابض انتظامیہ نے 48سیاحتی مقامات کو بند کردیا پہلگام فالس فلیگ،پاک فوج نے ایک اور بھارتی کواڈ کواپٹر مار گرایا، ایک روز میں تعداد 2ہو گئی بھارت، بی جے پی کے سینئر رہنما کا اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ سے استعفے کا مطالبہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کارکن صنم جاوید پولیس کے حوالے صنم جاوید کا پی ٹی آئی
پڑھیں:
مودی سرکار کی زیرِسرپرستی آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان
بھارتی ریاست آسام میں حکومت کی سرپرستی میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے۔
ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے زیر سایہ اور آشیرباد سے آسام میں ماورائے عدالت قتل کا خطرناک رحجان جاری ہے۔ بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت قتل انتہا پسند ہندتوا سوچ کا عکاس ہے اور مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو نافذ کرنے میں آسام پولیس مسلمانوں کو ماورائے عدالت قتل کرکے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ہندوتوا واچ انڈیپنڈنٹ ریسرچ پروجیکٹ کے مطابق ’’انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد آسام میں اقلیتوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق نومبر 2021ء میں آسام کے شہر جورہاٹ میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے رہنما انیمیش بھویان کو مشتعل ہجوم نے مار ڈالا۔ اس قتل کے الزام میں پولیس نے 13 افراد کو گرفتار کیا جس میں نیرج داس اور اس کا والد بھی شامل تھے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق یکم دسمبر کی رات نیرج داس پولیس حراست میں پراسرار طور پر ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ اُس نے جیپ سے چھلانگ لگا دی اور پیچھے آنے والی گاڑی سے ٹکرا کر جان گنوا بیٹھا، تاہم اہل خانہ نے پولیس کی فرضی کہانی کو مسترد کرتے ہوئے اسے منصوبہ بند قتل قرار دیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیرج داس کا پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہمنتا بسوا سرما کی وزارت اعلیٰ کے دوران مئی سے دسمبر 2021ء تک بھارتی پولیس نےکم از کم 31 ماورائے عدالت قتل کیے۔
پولیس کے مطابق مئی سے نومبر کے دوران 28 افراد فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ دسمبر کے آغاز میں مزید 3 کی موت واقع ہوئی جن میں داس بھی شامل ہے۔ رپورت میں کہا گیا ہے کہ پولیس کا بیانیہ تقریباً ہر کیس میں ایک جیسا ہے کہ ’ملزم نے فرار کی کوشش کی یا ہتھیار چھیننے کی کوشش کی، جس پر گولی چلائی گئی، تاہم لواحقین اور عینی شاہدین اکثر ان دعووں کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔
ہندوتوا واچ کے مطابق پولیس کے ہاتھوں مرنے والوں میں سے اکثر کا تعلق مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے تھا۔ 30 شناخت شدہ افراد میں سے 14 مسلمان اور 10 قبائلی برادریوں (بوڈو، دیماسا، کوکی) سے تھے جب کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد یا تو مجرم، منشیات فروش یا انتہا پسند تھے۔ اسی طرح پولیس کی فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی قابل توجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 مئی سے 10 دسمبر کے دوران 55 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کم از کم 30 مسلمان ہیں۔ جوینال عابدین کو گینگ لیڈر ظاہرکرکے 11 جولائی کو گھر سے گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ اہلِ خانہ اور دیہاتیوں نے پولیس بیان کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح جونگسر مشہری اور جنک برہما، ستمبر میں کراس فائر میں مارا گیا۔دونوں کے لواحقین کے مطابق دونوں پولیس حراست میں تھے اور رہائی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ علاوہ ازیں دلاور حسین کو جولائی میں حراست کے دوران گولیاں مار کر معذور کر دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ وہ فرار ہو رہا تھا، جبکہ حسین کے مطابق پولیس جھوٹ بول رہی ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق آسام پولیس کے ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کا وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مطابق اگر کوئی مجرم فرار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر گولی چلانا قابلِ قبول ہے۔ یہ اقدامات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ریاست کو مجرموں سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں 3 امور پر توجہ دینے کو کہا ہے۔ منشیات کی روک تھام، گائے کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ ان واقعات نے پولیس کی شفافیت، غیر جانب داری اور قانونی طریقہ کار پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ ناقدین کے مطابق پولیس زیادہ تر کارروائیوں میں اقلیتوں کو نشانہ بناتی ہے ۔ آسام میں ماورائے عدالت قتل کو بعض حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے، تاہم انسانی حقوق کمیشنز اور کئی سابق اعلیٰ افسران نے اس رجحان کو خطرناک قرار دیا ہے۔
ہندوتوا واچ کے مطابق سابق ڈی جی پی نے فوری انصاف کے نام پر مجرموں کو عدالت میں پیش کیے بغیر مارنا غیر جمہوری قرار دیا ہے۔