Express News:
2025-07-29@10:03:29 GMT

سروس کا اگلا نشیمن… پی آئی اے (دوسری قسط)

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

پی آئی اے میں جانے سے پہلے میں نے ملٹری سیکریٹری کے ذریعے وزیراعظم کے ساتھ الوداعی ملاقات کے لیے باقاعدہ وقت مانگا، لہٰذا ایک آدھ دن کے بعد میری باقاعدہ (formal) ملاقات طے ہوگئی یعنی پرائم منسٹر کے روزانہ کے پروگرام میں بھی اس کا اندراج ہوا۔ وزیراعظم کے ساتھ میری ملاقات یکطرفہ (monologue) ہی رہی۔ پولیس کا ایک جونیئر افسر پرائم منسٹر کے دفتر میں ان کے سامنے بیٹھ کر پندرہ منٹ تک سخت اور کڑوی باتیں کرتا رہا اور ملک کا طاقتور وزیراعظم خاموشی اور تحمّل سے سنتا رہا۔ میں نے سب سے زیادہ احتساب کا ذکر کیا کہ اسے ایک تماشا بنادیا گیا ہے اور متعلقہ لوگوں نے اسے ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا ہے، میں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’آپ کی حکومت، پاکستان کے Founding fathers کے وژن سے ہٹ چکی ہے اور ان کے نظریات سے روگردانی کررہی ہے مگر آپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے‘‘۔

نوازشریف صاحب کے حوصلے کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے سب کچھ سن لیا اور آخر میں مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے صرف تین لفظ کہے کہ ’’بس دعا کریں’’۔ اسٹاف افسری کے دوران میری کئی باتیں اور مشورے نہیں مانے گئے مگر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم میری دل سے عزّت کرتے تھے۔ میری عدم موجودگی میں وہ لوگوں کے سامنے اس رائے کا اظہار کئی بار کرچکے تھے کہ ’’ذوالفقار چیمہ نے کبھی کوئی ذاتی کام نہیں کہا، کبھی کوئی فرمائش نہیں کی، وہ ایک honourable اور دیانتدار افسر ہے جس بات کو صحیح سمجھتا ہے، صاف صاف کہہ دیتا ہے، لگی لپٹی نہیں رکھتا‘‘۔

پرائم منسٹر کے اسٹاف افسر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ بے حد مفید (rewarding) تھا۔ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر امورِ مملکت کس طرح چلائے جاتے ہیں، اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور صوبائی حکومتوں اور ہر سطح کے افسروں کے کام اور کارگردگی کا اوپر سے جائزہ لینے (overview) کا بڑا مفید تجربہ ہوا۔ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کے ساتھ ہوتے ہوئے باقی تمام عہدے چھوٹے لگتے ہیں، بڑے بڑے افسروں کی اصلیّت نظر آجاتی ہے اور کئی بڑے عہدوں پر براجمان چھوٹے لوگوں کی حرکتیں بے نقاب ہوتی ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کے ساتھ کام کرکے ایک جونیئر سول سرونٹ کی خوداعتمادی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ وہ غیر معمولی تجربہ پوری سروس میں میرے لیے بہت کارگر ثابت ہوا۔

 پی آئی اے میں مجھے جنرل منیجرکا رینک دے کر سیکیوریٹی، انویسٹی گیشن اور vigilance کے تینوں شعبوں کا انچارج بنادیا گیا۔ آرمی کے کئی ریٹائرڈ کرنل اور ائیرفورس کے سابق ائیرکموڈور ہمارے شعبے میں منیجرکے طور پر کام کررہے تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ فوجی افسران ڈسپلنڈ ہونے کی وجہ سے بہت اچھے subordinate ہوتے ہیں۔ پی آئی اے کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے میرا دفتر بھی وہیں تھا۔ چیئرمین شاہد خاقان صاحب ائیر پورٹ کی عمارت کے قریب پی آئی اے کے 'Midway Hotel' میں چوتھے فلور پر رہتے تھے۔ انھوں نے اُسی فلور پر مجھے بھی ایک کمرہ الاٹ کردیا، ایک عدد کار بھی مل گئی جو دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر جانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

جمعہ کی شام کو میں کراچی سے سات بجے کی فلائیٹ پر اسلام آباد چلاجاتا اور سوموار کی صبح کو کراچی ہیڈ آفس پہنچ جاتا۔ پی آئی اے میں کہیں بھی جانے کے لیے میرا فضائی سفر مفت ہوتا تھا۔ یہاں مجھے کارپوریٹ کلچر کو اندر سے دیکھنے اور اس کا مشاہدہ کرنے کا پہلی بار تجربہ ہورہا تھا جو بہت دلچسپ اور مفید تھا۔ چارج لینے کے دوسرے ہی دن مجھے ایک لفافہ موصول ہوا جس کے مطابق مجھے ایک انکوائری سونپ دی گئی تھی، جس کے واقعات اس طرح تھے کہ کچھ عرصہ پہلے پی آئی اے کی فلائٹ پیرس پہنچی تو عملہ (crew) اپنے ہوٹل چلاگیا۔ اگلے روز واپسی کا وقت ہوا تو باقی عملہ پہنچ گیا مگر دو ائرہوسٹسزغائب تھیں۔ دونوں جہاز پر اپنی ڈیوٹی ادا کرنے نہ پہنچ سکیں جس کی وجہ سے فلائیٹ بہت لیٹ ہوگئی۔ ماضی میں بھی وہ ایک بار ایسی حرکت کرچکی تھیں۔ الزام الیہان کو انکوائری کے سلسلے میں طلب کیا گیا تو وہ پیش ہوگئیں۔ دونوں خوش شکل تھیں، دونوں نے الزام ماننے سے انکار کیا۔ انکوائری افسر اور الزام الیہان کے درمیان سوال وجواب اس طرح ہوئے۔

سوال: تم پر الزام ہے کہ تم ہوٹل میں ہی رہیں اور اپنی ڈیوٹی پر نہ پہنچیں جس کی وجہ سے پی آئی اے کی پرواز میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ تمہاری اس حرکت کی وجہ سے ائیر لائینز کا امیج خراب ہوا ہے۔ اس ضمن میں تمہارا کیا کہنا ہے۔

جواب: سر! میں سوئی رہی تھی، اس لیے لیٹ ہوگئی۔

سوال: بی بی! پی آئی اے حکام کو تمہارے سونے پر اعتراض نہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ معاملا کچھ اور تھا۔ تمہارے ساتھ ایک غیر ملکی تھا۔ جواب: سر! میں اگر کسی فرنچ دوست کے ساتھ ڈنر پر چلی جائوں تو پاکستانی عملے کے لوگ جلتے ہیں اور ایسی ویسی باتیں بنانی شروع کردیتے ہیں، سر! انھیں تو نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ ملک کی عزت کا۔

سوال: مگر تم نے بھی پیرس میں ملک کی عزّت کا جس طرح خیال رکھا وہ تو بڑا انوکھا طریقہ ہے۔ کسی اور ملازم کے بارے میں اگر تم لکھ کر دے دو اور کچھ ثبوت بھی فراہم کردو تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ کیا ماضی میں بھی تم پر ایسا الزام لگ چکا ہے؟

جواب: جی ایک بار پہلے بھی لگا تھا مگر ثابت کچھ نہیں ہوا۔

دوسری ائیرہوسٹس: سر! میں میرا ایسی حرکت کروں تو میرے قبیلے والے ہی مجھے مار ڈالیں گے۔ انکوائری افسر: پیرس میں تمہاری حرکات وسکنات کا تمہارے قبیلے کو کیسے پتہ چل سکتا تھا؟ اس پر وہ خاموش رہی۔

ہم نے پیرس میں اپنے اسٹیشن منیجر سے کہا کہ وہ سارے حقائق معلوم کرکے بھجوائے۔ اُس کی رپورٹ آئی تو موصوف دونوں فضائی میزبانوں کے لیے خاصا نرم گوشہ رکھتے ہیں، بہرحال ہماری رپورٹ پر دونوں کو فضائی میزبانی کے فرائض سے ہٹادیا گیا۔

 اسی دوران پتہ چلا کہ آرمی چیف جنرل مشرّف نے کارگل آپریشن شروع کردیا ہے۔ پھر ایک روز پی آئی اے کے اعلیٰ حکّام کی میٹنگ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ بھارت پی آئی اے کے جہازوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ایک بار ہمارے ایک جہاز میں بم رکھنے کی اطلاع بھی آئی، جس پر مجھے ہدایات ملیں کہ پی آئی اے کی پروازوں کی سیکیوریٹی کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں مختلف ائرپورٹس پر جاکر مسافروں کے سامان کی چیکنگ کے سسٹم کا معائنہ کیا جائے کہ آیا ان کی چیکنگ کرنے والی مشینیں تسلّی بخش بھی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ متعلقہ ائرپورٹس کے حکّام کے ساتھ میٹنگز کرکے حفاظتی انتظامات کو فول پروف بنانے کی بھی ہدایات ملیں۔ چنانچہ میں نے کئی دوسرے ائرپورٹس کے علاوہ لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور نیویارک کے جے ایف کینیڈی ائیرپورٹ کا بھی تفصیلی معائنہ کیا۔ ہیتھرو پر تو حفاظتی انتظامات کسی حد تک معقول تھے مگر امریکا میں تو ائیرپورٹ پر سیکیوریٹی کا بندوبست انتہائی ڈھیلا ڈھالا تھا۔ مسافروں کے عزیز اور دوست انھیں الوداع کہنے کے لیے جہاز کے پاس پہنچ جاتے، کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

زیادہ تر ائرپورٹس پر سیکیوریٹی کی ذمّے داری پولیس کے پاس تھی۔ امریکا میں ائرپورٹ پر حفاظتی انتظامات کا ٹھیکہ کسی پرائیویٹ کمپنی کو دیا گیا تھا۔ متعلقہ کمپنی کے حکّام کے ساتھ جب میں مختلف واک تھرو گیٹ چیک کررہا تھا تو دوسرے واک تھرو گیٹ سے گذر کر میں رک گیا اور میں نے اُن کے سامنے اپنی جرابوں میں سے دھات کا ایک آلہ نکال کر دکھایا کہ یہ دیکھیں اسے آپ کے گیٹ detect نہیں کرپائے۔

اس پر وہ خاصے نادم ہوئے۔ ہم اس کمپنی کے کلائینٹ تھے اور اسے سیکیوریٹی مہیّا کرنے پر بھاری فیس ادا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے بھی ان پر خاصی چڑھائی کی۔ بہرحال ناقص انتظامات پر معذرت کرنے کے بعد انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد واک تھرو گیٹ تبدیل کریں گے اور ایسے گیٹ نصب کریں گے جن کی detection کی شرح 90% ہوگی۔ میرے دوروں سے ہر جگہ بڑا واضح میسج چلاگیا کہ پی آئی اے کے حکام ہر ائرپورٹ پر حفاظتی انتظامات خود چیک کررہے ہیں، اس سے تمام سیکیوریٹی کمپنیاں محتاط ہوگئیں۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حفاظتی انتظامات پی ا ئی اے کے کی وجہ سے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

کرم کے شیعہ سنی عمائدین کا کوہاٹ میں جی او سی کی قیادت میں امن جرگہ

اسلام ٹائمز: جرگہ ممبر اور ایم ڈبلیو کے رہنماء شبیر حسین ساجدی نے کہا کہ منیر بنگش کی بات اپنی جگہ پر درست ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی کوئی آنکھ نہ چرائے کہ 2007ء سے بہت پہلے 1983ء میں صدہ سے جو اہل تشیع بیدخل ہوچکے ہیں، پہلے انہیں آباد کرایا جائے۔ اسکے بعد صدہ سے بیدخل شدہ افراد کو بحال کیا جائے۔ رپورٹ: استاد ایس این حسینی

کرم میں مستقل امن کے قیام کی غرض سے کوہاٹ میں جی او سی کی قیادت میں شیعہ سنی عمائدین بشمول انجمن حسینیہ، تحریک حسینی اور انجمن فاروقیہ کا آپس میں امن جرگہ ہوا۔ جس میں کرم میں مستقل امن و امان کے قیام پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر جی او سی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرم سمیت پورے فاٹا میں امن کا قیام ناگزیر ہے اور ہر صورت میں کے پی میں امن لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان کرم کے ساتھ اسلحہ کی جمع آوری کے حوالے سے بار بار بات ہوئی ہے۔ جس پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا ہے۔ چنانچہ ایک بار پھر یاد دہانی کراتے ہیں کہ ان کے پاس دو ہی آپشن ہیں، ایک یہ کہ رضاکارانہ طور پر بڑے ہتھیار حوالے کر دیں، ورنہ ہمیں آپریشن کرنا پڑے گا۔ روڈ کھلوانے کے حوالے سے انہوں نے کہا روزانہ 4 گھنٹے روڈ کھلا ہے، تاہم آپ کے اصرار پر اسے 2 گھنٹے مزید بڑھا کر 6 گھنٹے کرلیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق سیکرٹری انجمن حسینیہ جلال حسین بنگش نے کہا کہ روزانہ چار گھنٹے روڈ کھولنے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ انہوں نے روڈ کو مکمل طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیٹ کے خلاف جو بھی سامنے آتا ہے، ہم اس کے خلاف حکومت کے ساتھ ہیں۔ انجمن فاروقیہ کے سیکرٹری منیر حسین بنگش نے کہا کہ پاراچنار میں امن کے قیام کا انحصار اور دارومدار وہاں سے بیدخل شدہ اہل سنت کی آبادکاری پر ہے۔ اگر وہاں پر اہل سنت آباد ہوگئے، تو مکس ٹرانسپورٹ اور مکس مسافرین کی وجہ سے راستے میں کوئی جسارت نہیں کرے گا۔ لہذا ہم حکومت اور اہل تشیع سے مطالبہ کرتے ہیں کہ 2007ء میں وہاں سے بیدخل شدہ اہل سنت کو فوری طور پر آباد کرایا جائے۔

جرگہ ممبر اور ایم ڈبلیو کے رہنماء شبیر حسین ساجدی نے کہا کہ منیر بنگش کی بات اپنی جگہ پر درست ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی کوئی آنکھ نہ چرائے کہ 2007ء سے بہت پہلے 1983ء میں صدہ سے جو اہل تشیع بیدخل ہوچکے ہیں، پہلے انہیں آباد کرایا جائے،  اس کے بعد صدہ سے بیدخل شدہ افراد کو بحال کیا جائے۔ انجمن حسینیہ کے سیکرٹری حاجی ضامن حسین نے کہا کہ علاقائی ترقی کا دارومدار روڈ اور ٹریفک پر ہے، جبکہ ہمارا مین روڈ گذشتہ 10 ماہ سے بند پڑا ہے۔ لہذا حکومت پاکستان سے ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ روڈ کو فوری طور پر کھول کر عوامی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔

ریاض شاہین نے کہا کہ امن کسے پسند نہیں اور کون ہے جو شرپسندوں یا دہشتگردی سے محبت رکھتا ہو۔ انہوں نے طوری عمائدین کے ساتھ گپ شپ کے انداز میں اور طنزاً بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ہمیشہ سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ ہم طالبان کے خلاف اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں تو یہ بتائیں کہ آپ نے کب حکومت کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ جنگ کی ہے۔ صدر تحریک نے کہا کہ علاقے کی خوشحالی اور ترقی کا واحد ضامن امن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی امن ہی کو اہمیت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکہ کی آبادی پر ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے امن کی اور بعد میں رزق کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے عقائد پر حملہ اور مقدسات کی توہین ہے۔

حالانکہ رسول اللہ سے خود اللہ کہتا ہے کہ آپ کا کام میرا پیغام پہنچانا ہے، باقی ان کی مرضی اسلام لائیں یا اپنے عقیدے پر رہیں، اس کی فکر آپ نہ کریں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ معاہدہ کوہاٹ کا ہم احترام کرتے ہیں، اس معاہدے کے تھرو امن کے قیام میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔ تاہم معاہدے سے ہٹ کر ہم کسی بھی مطالبے کو ٹھکراتے ہیں۔ فخر زمان نے کہا کہ کرم کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ اس سے قبل تو جنگ دو دن رہتی تیسرے دن جنگ ختم ہو جاتی اور اس کے ساتھ ہی راستے کھل جاتے تھے۔ اس کے بعد کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔ آج کل تو حالت یہ بنی ہے کہ جب ایک دفعہ لڑائی چھڑ جاتی ہے تو مہینوں تک جنگ جاری رہتی ہے اور رکنے کا نام نہیں لیتی۔ مجموعی طور پر جرگہ خوشگوار ماحول میں منعقد ہوا۔ شیعہ سنی عمائدین ایک دوسرے کے ساتھ نہایت شفقت اور محبت سے پیش آئے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمن قونصلیٹ کی پاکستانیوں کیلئے ویزا سروس بند
  • پنجاب پولیس کی خاتون افسر نے دوران سروس پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر لی
  • کرم کے شیعہ سنی عمائدین کا کوہاٹ میں جی او سی کی قیادت میں امن جرگہ
  • پشاور کے میٹرک بورڈ کے نتائج، ایک ہی اسکول کی طالبات نے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی
  • ’’اپنی چھت اپنا گھر‘‘پروگرام ، گھروں کی تعمیر کیلئے دوسری قسط کا اجراء
  • اسلام آباد میٹرو بس حادثہ ڈرائیور کی غفلت یا بدقسمتی؟ سکیورٹی گارڈ جان کی بازی ہار گیا
  • کراچی کے گولفر سعد حبیب نے امریکا میں منعقدہ چیمپئن شپ میں دوسری پوزیشن حاصل کرلی
  • غیرت کے نام پر مبینہ قتل کی کہانی نیا موڑ اختیار گئی، دوسری شادی کا نکاح نامہ اور سسر کا بیان منظرِ عام پر آگیا
  • پنجاب پولیس کی خاتون افسر نے دوران سروس پی ایچ ڈی مکمل کر لی
  • اسٹارلنک نیٹ ورک میں فنی خرابی، امریکا و یورپ میں انٹرنیٹ سروس معطل