یورپی یونین کی عدالت انصاف نے مالٹا کی ’ گولڈن پاسپورٹ اسکیم‘ کو یورپی یونین کے قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’یونین کی شہریت کا حصول تجارتی لین دین کے نتیجے میں نہیں ہو سکتا ہے۔‘

جرمن میڈیا رپورٹ کے مطابق برسلز نے مالٹا کے اس پروگرام کے خلاف یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:یورپ میں مختصر مدت روزگار کے سنہری مواقع، ورک ویزا کیسے حاصل کریں؟

یورپی یونین کی عدالت انصاف کی جانب سے گزشتہ روز دیا گیا فیصلہ ’بائنڈنگ‘ ہے اور مالٹا کو اس کی تعمیل کرنا ہو گی یا پھر اسے بھاری جرمانے کے خطرے کا سامنا ہو گا۔

جرمن میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ کوئی رکن ملک پہلے سے طے شدہ ادائیگیوں یا سرمایہ کاری کے بدلے اپنی شہریت اور اس طرح یورپی شہریت نہیں دے سکتا کیونکہ یہ بنیادی طور پر شہریت کے حصول کو محض تجارتی لین دین بنانے کے مترادف ہے۔

عدالت انصاف کے مطابق مالٹا کی اسکیم مخلصانہ تعاون کے اصول کی خلاف ورزی کرتی ہے اور رکن ممالک کے درمیان ان کی شہریت دینے کے بارے میں باہمی اعتماد کو خطرے میں ڈالتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عدالت انصاف گولڈن ویزا اسکیم مالٹا یورپی یونین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عدالت انصاف گولڈن ویزا اسکیم مالٹا یورپی یونین یورپی یونین کی عدالت انصاف

پڑھیں:

امریکی عدالت کا ٹرمپ کے انتخابی حکم پر بڑا فیصلہ، ایگزیکٹو آرڈر معطل

امریکا کی ریاست میساچوسٹس کی ایک وفاقی عدالت نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کر دیا ہے، جس کے تحت ووٹنگ کے طریقہ کار میں اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔

عدالت نے اس حکم کو آئینی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ انتخابی ضوابط کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے، نہ کہ صدر کو۔

ٹرمپ کے حکم نامے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ووٹروں کو رجسٹریشن کے وقت شہریت کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ہوں گے اور صرف وہ ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ قابل قبول ہوں گے جو انتخابی دن تک موصول ہو جائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ اگر وہ وفاقی مالی امداد چاہتی ہیں تو وہ ان نئے اصولوں کو لاگو کریں۔

عدالت کے جج ڈینیز کیپر نے قرار دیا کہ یہ حکم ریاستوں کے آئینی اختیارات پر مداخلت ہے اور صدر کو ایسا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ملک بھر میں انتخابی طریقہ کار خود طے کرے۔

جج کے مطابق اس حکم سے ریاستوں پر غیر ضروری مالی بوجھ بھی پڑے گا اور ان کی خودمختاری متاثر ہو گی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو نشانہ بنایا ہو۔ اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی اور دیگر عدالتوں میں بھی اس کے خلاف فیصلے دیے جا چکے ہیں، جن میں اس کے مختلف نکات کو معطل کیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے عدالت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا حکم آزاد اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تھا، لیکن عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ ادھر کئی ریاستوں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے جمہوری اصولوں کی فتح قرار دیا ہے۔

یہ عدالتی فیصلہ امریکی انتخابی عمل میں صدر کے اختیار کی حدود کے بارے میں ایک اہم نظیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • بیرون ملک سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے والوں کے پاسپورٹس منسوخ کرنے کا فیصلہ
  • امریکی عدالت کا ٹرمپ کے انتخابی حکم پر بڑا فیصلہ، ایگزیکٹو آرڈر معطل
  • تخفیف اسلحہ پر پاکستان-یورپی یونین گول میز کانفرنس کا انعقاد
  • چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطحی پارلیمانی وفد کی یورپی یونین حکام سے اہم ملاقات
  • چین اور یورپی یونین کو کثیر الجہتی طور پر قریبی تعاون کرنا چاہئے ، چینی وزیر اعظم
  • ججز کا غائب ہونا عمران خان کیخلاف مقدمات جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے، بیرسٹر سیف
  • 5 ملین ڈالر میں امریکا کی مستقل شہریت، ویب سائٹ کا آغاز
  • یورپی یونین بھارت پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے جیسے ماورائے قانون اقدامات سے اجتناب کرنے پر زور دے، بلاول بھٹو زرداری
  • امید ہے یورپی یونین بھارت پر دباؤ ڈالے گی: بلاول بھٹو
  • یورپی یونین نے امارات کو منی لانڈرنگ کی ہائی رسک فہرست سے نکال دیا