سپریم کورٹ نے لاء کلرکس کی آسامیوں کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
ترجمان سپریم کورٹ آف پاکستان کے مطابق، اعلیٰ عدلیہ نے لاء کلرکس کی آسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں۔ ان آسامیوں پر تقرری ایک سال کی مدت کے لیے کی جائے گی۔
ترجمان کے مطابق کلرک شپ پروگرام کا آغاز جون 2025 سے ہوگا اور اس کے لیے درکار تمام شرائط، اہلیت کے معیار اور درخواست فارم سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
مزید پڑھیں: وفاقی حکومت نے محکمہ تعلیم میں سینکڑوں نئی آسامیوں کا اعلان کردیا
امیدوار www.
ترجمان نے واضح کیا ہے کہ درخواستیں مقررہ شرائط و ضوابط کے مطابق ہی قابلِ قبول ہوں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسامی جج سپریم کورٹ لا کلرکذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ لا کلرک
پڑھیں:
سپریم کورٹ، پنشنر کی وفات کے بعد مطلقہ بیٹی کا پنشن حق بحال
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کے اس سرکلر کو غیرآئینی قرار دیا ہے جس کے تحت پنشنر والد کی وفات کے بعد طلاق یافتہ بیٹی کے پنشن کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک کی جانب سے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سندھ حکومت کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا گیا کہ یہ سرکلر اپنے آغاز سے ہی غیر آئینی اور کسی قانونی اثر کے بغیر ہے اور اسے پنشنر کی وفات کے وقت زندہ رہنے والی بیٹی کے پنشن کے حق کو ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے قرار دیا کہ پاکستان کی بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریاں اس اصول کو تقویت دیتی ہیں کہ خواتین کو صرف ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر معاشی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
بیٹیوں کو ضرورت کی بنیاد پر پنشن دی جاتی ہے نہ کہ ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر۔ درحقیقت، بھارت میں بھی معذور بچوں کو ان کی مالی ضرورت کی بنیاد پر زندگی بھر خاندانی پنشن حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے بھی اسی طرح کے اقدامات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب وہ بھی بیوہ یا طلاق یافتہ بیٹیوں کے لیے پنشن کی اجازت دیتا ہے اور بعض اوقات ان پوتوں کے لیے بھی جو پنشنر پر منحصر ہوتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پنشن کی بروقت ادائیگی صرف ایک انتظامی اقدام نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہے۔
یہ انتہائی تشویشناک ہے کہ پنشنر کی وفات کے بعد زندہ رہنے والی بیٹی کے لیے پنشن کی اہلیت کا انحصار مکمل طور پر اس کی ازدواجی حیثیت پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک منظم تعصب موجود ہے جو بیٹی کو صرف ایک ڈیپینڈینٹ کے طور پر دیکھتا ہے جس کا مالیاتی انحصار شادی کے بعد والدین سے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
یہ مفروضہ اس غلط رائے پر مبنی ہے کہ غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ خواتین مالیاتی طور پر ڈیپینڈینٹ ہوتی ہیں جبکہ شادی شدہ خواتین مالی طور پر محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ ذہنیت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ شادی شدہ خواتین کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنشن معاملات میں اس مفروضے کے تحت ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر اس قسم کا اخراج غیر آئینی، امتیازی سلوک اور آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔