بیجنگ :چین کی وزارت خارجہ کے متعلقہ حکام نے چین میں فلپائن کے سفیر کو طلب کیا اور  تائیوان سے متعلق اور سلامتی کے شعبوں میں فلپائن کی طرف سے حالیہ منفی رجحانات  کے سلسلے پر اپنے  اعتراض کا  سنجیدگی سے  اظہار کیا۔ 2023 کے بعد سے ، فلپائن ایشیا بحر الکاہل کے خطے میں جغرافیائی سیاسی صورتحال میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اہم عوامل میں سے ایک رہا ہے۔ فلپائن نے امریکہ کے ساتھ “شولڈر ٹو شولڈر” مشترکہ فوجی مشق کی،جاپان کے ساتھ فوجی اور سیکیورٹی تعاون  کو بڑھانے کی کوشش کی  اور آسٹریلیا ، فرانس ، برطانیہ ، کینیڈا اور دیگر امریکی اتحادیوں کے ساتھ سیکیورٹی اور دفاعی تعاون کو بھی اپ گریڈ کیا ہے۔تاہم لومڑی کی طرح  شیر کی طاقت  کا استعمال کر کے دوسروں پر ظلم کرنے کی  فلپائن کی   چال  ناکام ہوگی.

امریکہ اور جاپان دونوں نے  فلپائن میں کالونیاں قائم کی تھیں اور آج فلپائن کے لئے ان  ممالک کی امداد اور حمایت ان کے اپنے  مفادات کے  لیے ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے یہ واضح کرتا رہا ہے کہ فلپائن اور چین کے درمیان ممکنہ مسلح تنازعے میں ملوث ہونے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے  اور جاپان کی طرف سے فراہم کردہ اسلحہ  اور بحری جہاز فلپائن کی فوجی طاقت  کو  تبدیل نہیں کرسکتے ۔مارکوس انتظامیہ نے واضح طور پر چین کے عزم  اور موجودہ  صورتحال کا غلط اندازہ لگایا ہے ۔  چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ  بحیرہ جنوبی چین میں امن و استحکام برقرار رکھنے اور مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے تنازعات کے حل کی وکالت کرنے کے لیے  پرعزم  ہے لیکن  ساتھ  ہی  چین  بحیرہ جنوبی چین میں اپنی علاقائی خودمختاری اور  حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے  بھی پرعزم ہے۔چین نے کئی بار  واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ آگ سے  کھیلنے والے خود کو جلا ئیں گے۔

Post Views: 1

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

جولانی اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں

اسلام ٹائمز: احمد الشرع جو پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف تھے نے 2000ء میں القاعدہ میں شمولیت اختیار کی اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت کے دوران عراق میں سرگرم کردار ادا کیا۔ کوری ملز ٹرمپ کے سخت حامی ہیں جو عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت کے دوران فوج میں تھے اور اسنائپر شوٹر کے طور پر جنگ میں شامل تھے۔ اس کے بعد وہ فوجی ٹھیکیدار بن گئے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ملز نے احمد الشرع کو بتایا کہ وہ ان سے ایسے بات چیت کرنا چاہتا ہے جیسے "ایک سپاہی سپاہی سے بات کرتا ہے"۔ احمد الشرع کی جانب سے ابراہیم معاہدے میں شمولیت کی خواہش کے اظہار نے اسے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے جنہوں نے 2020ء میں اس معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ تحریر: علی احمدی
 
شام کا نیا صدر احمد الشرع اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہو گیا ہے۔ یاد رہے احمد الشرع وہی ابو محمد الجولانی ہے جو کئی سالوں تک القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں النصرہ فرنٹ اور ھیئت تحریر الشام میں سرگرم کمانڈر کے طور پر دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دے چکا ہے۔ شام پر امریکہ نے عرصہ دراز سے شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں جو صدر بشار الاسد کی حکومت ختم ہو جانے اور ابو محمد الجولانی کا نام بدل کر احمد الشرع کے طور پر شام کے نئے صدر کے طور پر اقتدار سنبھال لینے کے باوجود جوں کی توں ہیں۔ اب احمد الشرع ان پابندیوں کو ختم کروانے کی کوشش میں مصروف ہے اور اس نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اگر اس مقصد کے لیے ابراہیم معاہدے میں شامل ہو کر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرے گا۔
 
احمد الشرع نے ایک امریکی ماہر قانون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام "مناسب حالات" کی صورت میں ابراہیم معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی کانگریس کے ریپبلکن رکن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی کوری ملز نے گذشتہ ہفتے شام کا دورہ کیا اور دمشق میں 90 منٹ تک احمد الشرع سے ملاقات کی۔ یہ دورہ شام نژاد امریکی شہریوں کی حمایت سے انجام پایا اور اس کا مقصد زمینی حقائق کا قریب سے جائزہ لینا بتایا گیا ہے۔ کوری ملز نے بلوم برگ کو بتایا کہ محمد الشرع سے ملاقات کے دوران شام پر امریکی پابندیاں مرحلہ وار ختم کرنے کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔ کوری ملز کے بقول اس نے احمد الشرع پر زور دیا ہے کہ وہ سابق صدر بشار اسد کے زمانے میں موجود کیمیکل ہتھیاروں کی باقیات کو ختم کرے۔
 
کوری ملز نے اسی طرح احمد الشرع پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمسایہ ممالک سے تعاون کرے اور ھیئت تحریر الشام میں شامل غیر ملکی جنگجو عناصر کا مقابلہ کرے۔ ملز نے احمد الشرع سے یہ بھی کہا کہ اسے اسرائیل کو کچھ چیزوں کے بارے میں گارنٹی فراہم کرنی پڑے گی۔ یاد رہے جب سے شام میں صدر بشار اسد حکومت کا خاتمہ ہوا ہے اس وقت سے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے شام پر شدید فضائی اور زمینی فوجی جارحیت شروع کر رکھی ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر صیہونی فوج نے شام کی حدود میں گھس کر جنوب مغربی علاقوں میں واقع پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا ہے جہاں سے اسے دارالحکومت دمشق پر بھی مکمل احاطہ حاصل ہے۔ اسرائیل کی جانب سے شام پر غاصبانہ قبضہ محمد الشرع کی سربراہی میں شام کی نئی حکومت کو درپیش ایک اور چیلنج ہے۔
 
امریکہ نے شام پر اس وقت سے شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں جب خطے میں مختلف عرب ممالک میں احتجاجی تحریکیں جنم لے رہی تھیں اور شام میں بھی تکفیری عناصر نے صدر بشار اسد کے خلاف بغاوت کا اعلان کر رکھا تھا۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بہانہ بنا کر شام پر یہ پابندیاں عائد کی تھیں۔ اسی طرح امریکہ نے 1979ء سے شام کو دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔ شام کے خلاف امریکہ کی عائد کردہ پابندیاں "قیصر" نامی قانون کے تحت لگائی گئی تھیں جن کا بنیادی مقصد خطے میں ایسے تمام ممالک کو کمزور کرنا تھا جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل کے مخالف اور دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ چونکہ شام خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ تصور کیا جاتا تھا لہذا اسے امریکی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
 
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شام پر امریکی پابندیوں کا نتیجہ خلیجی ریاستوں اور ترکی کی جانب سے شام میں سرمایہ کاری میں اہم رکاوٹ ثابت ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہے جن کے بارے میں قوی امکان ہے کہ شام میں تعمیر نو پراجیکٹس انہیں سونپے جائیں گے۔ ٹرمپ حکومت نے شام پر اقتصادی پابندیاں ہٹانے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی لیکن اس مقصد کے لیے کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات انجام پائے ہیں۔ مارچ میں رویٹرز نے رپورٹ دی تھی کہ امریکہ نے قطر کو اردن کی گیس پائپ لائن کے ذریعے شام کو گیس فراہمی کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح اپریل کے شروع میں رویٹرز نے ایک اور رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب عالمی بینک میں شام کے قرضے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں شام میں تعمیر نو کے لیے کئی ملین ڈالر جمع ہو سکیں گے۔
 
احمد الشرع جو پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے معروف تھے نے 2000ء میں القاعدہ میں شمولیت اختیار کی اور 2003ء میں عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت کے دوران عراق میں سرگرم کردار ادا کیا۔ کوری ملز ٹرمپ کے سخت حامی ہیں جو عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت کے دوران فوج میں تھے اور اسنائپر شوٹر کے طور پر جنگ میں شامل تھے۔ اس کے بعد وہ فوجی ٹھیکیدار بن گئے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق ملز نے احمد الشرع کو بتایا کہ وہ ان سے ایسے بات چیت کرنا چاہتا ہے جیسے "ایک سپاہی سپاہی سے بات کرتا ہے"۔ احمد الشرع کی جانب سے ابراہیم معاہدے میں شمولیت کی خواہش کے اظہار نے اسے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے جنہوں نے 2020ء میں اس معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف غنڈہ گردی سے امریکہ کو نقصان ہوا، چینی میڈیا
  • امریکی حکومت کو اعتماد کے عالمی بحران کا سامنا ہے، چینی میڈیا
  • خوش رہنے والے لوگوں میں ایشیا کے باشندے سرفہرست، خوشی کا راز کیا ہے؟
  • مصالحت اور پسپائی کا راستہ جبر کرنے والے کو مزید جبر کا موقع فراہم کرے گا ، چینی وزیر خارجہ
  • ایران جاری ہفتے کے آخر تک یورپ کیساتھ بھی مذاکرات شروع کر سکتا ہے، عالمی میڈیا
  • چینی کوسٹ گارڈ نے تھیئَے شیئن ریف پر اترنے والے فلپائنی افراد سے قانونی طور پر نمٹا
  • جولانی اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں
  • افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54 عسکریت پسند ہلاک کر دیے، پاکستانی فوج
  • بالی ووڈ کی سینئر اداکارہ کا بدتمیزی کرنے والے سپر اسٹارز کو تھپڑ مارنے کا انکشاف