گھروں میں کام کے بہانے چوریاں؛ گینگ سرغنہ پکڑی گئی، ڈیڑھ کروڑ کا سونا برآمد
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
لاہور:
گھروں میں کام کے بہانے چوریاں کرنے والے خواتین گینگ سرغنہ پکڑی گئی، جس سے ڈیڑھ کروڑ کا سونا اور دیگر اشیا برآمد کرلی گئیں۔
پولیس کے مطابق خواتین چور گینگ کی سرغنہ کو گرفتار کرکے کروڑوں مالیت کے طلائی زیورات اور موبائل فونز برآمد کرلیے گئے ہیں۔ انچارج انویسٹی گیشن گلشن اقبال کی پولیس ٹیم نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے پیشہ ور لیڈی چور گینگ کی سرغنہ صفیہ کو گرفتار کرکے بھاری مالیت کا مال مسروقہ برآمد کیا۔
پولیس نے بتایا کہ علاقے میں خواتین گینگ کی جانب سے مسلسل وارداتوں کی اطلاعات تھیں، جس پر کارروائی کرتے ہوئے سرغنہ کو گرفتار کیا گیا اور ملزمہ کی نشاندہی پر ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کا 40تولہ سونا، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیا برآمد کرلی گ ئیں۔
ملزمہ صفیہ اپنی ساتھی آمنہ کے ساتھ مل کر گھروں میں کام کاج کے بہانے داخل ہوتی تھی۔ ملزمہ خواتین گھر والوں کی غیر موجودگی یا موقع ملتے ہی گھر کا صفایا کر کے فرار ہو جاتی تھیں۔ ملزمہ نے شہر کے مختلف علاقوں میں متعدد وارداتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔
ملزمہ کو سی سی ٹی وی کیمروں اور ہیومن انٹیلی جنس کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔
بعد ازاں برآمد ہونے سالا سامان مدعیان کے سپرد کردیا گیا، جنہوں نے پولیس کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری جانب حکام نے پولیس ٹیم کے لیے تعریفی اسناد کا بھی اعلان کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔