پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں پرعمل درآمد کی اشد ضرورت ہے، ماہرین
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
پاکستان ماہرین نے اپنی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ ماحولیاتی مسائل ہوں، یا پھرموسمیاتی شدت ، اس ضمن میں واضح پالیسیاں موجود ہیں جن پراب ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
جامعہ کراچی میں " آبی حیاتیاتی تنوع اور سماجی ماحولیاتی پس منظر اور ٹیکنالوجی کے موضوع" پر منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز مختلف ماہرین نے تکنیکی سیشنز میں اپنی تحقیقات پیش کیں۔
ڈاکٹر شاہد امجد نے پاکستانی ساحلوں پر پائی جانے والی حیات کے مختلف پہلوؤں پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بایوڈائیورسٹی کی بہتات کسی نظام کی تندرستی کی علامت ہے۔ ساحلی کنارے مینگرووز یا تمر کے جنگلات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کیٹی بندر (سندھ ڈیلٹا) اور دیگر علاقوں میں مقامی آبادی ان کی افزائش کرتی ہے جن سے وہاں کے لوگ مالی فوائد بھی حاصل کررہے ہیں جو ایک بہتر مثال ہے۔
بعد ازاں جامعہ سندھ سے وابستہ جنید رزاق سومرو نے اپنی پریزینٹیشن میں سندھ کے دورافتادہ اور انتہائی غریب علاقوں پر چشم کشا حقائق بیان کئے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح پدرشاہی کے ماحول میں دیہی خواتین موسمیاتی شدت کے صدمے سہہ رہی ہے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
جنید رزاق سومرو نے کہا کہ لاڑکانہ میہڑ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں خواتین، بھوک، قدرتی آفات اور دیگر مسائل میں گرفتار ہیں۔ انہوں نے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پرائمری جماعت کی تین ہزار بچیوں میں سے ڈھائی ہزاربچیاں، پانچویں جماعت سے آگے نہیں پہنچ پاتیں کیونکہ ان کی زبردستی شادی کرادی جاتی ہے۔ اس طرح 10 سے 12 سال کی ان بچیوں پر گھر، کفالت اور حمل کی ذمے داریاں بوجھ بن جاتی ہیں جس میں وہ پوری زندگی گرفتار رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف پالیسیوں کے ثمرات اور مالی فوائد اصل حقدار تک پہنچنے کی بجائے بااثر لوگوں کی بندربانٹ کے نذرہوجاتے ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی پس منظر میں خواتین کی تعلیم، سماجی تحفظ، شعور اور قانون سازی پر عمل کرتے ہوئے ان کی مدد پر زور دیا۔
دوسرے سیشن میں سندھ فاریسٹ سے وابستہ ڈاکٹر ذیشان نے چند امید افزا حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ کئی عشروں کی دیکھ بھال اور محنت سے قیمتی میگروز کی تعداد میں اب 300 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جنگلات کو تحفظ کا درجہ حاصل ہے اور یوں درختوں کی کٹائی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جارہی ہے۔
سندھ یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عظمیٰ پروین نے اپنے ہی گاؤں 'پیچوہو' کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ قمبر شہداد کوٹ کا یہ چھوٹا سا علاقہ موسمیاتی شدت کا شکار رہتا ہے۔ کبھی یہ سیلاب میں گِھرجاتا ہے تو 2010 کی ہیٹ ویو سے مجروح ہوا ہے۔ یہاں کی اکثر آبادی کاشتکاری سے وابستہ ہے اور اب یہ حال ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد اب کھیتوں میں کام نہیں کرسکتیں اور یوں موسمیاتی شدت سے دوہری متاثر ہورہی ہیں۔
دوسری جانب فصلوں کی مکمل خرابی سے یہاں کی خواتین کا واحد ذریعہ معاش بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر ان کی مدد اور ہرطرح کی پالیسی پر عمل درآمد پر زور دیا۔
سمندر پر تحقیق اور تحفظ کے ایک ادارے سے وابستہ سندس سہیل نے کہا کہ مونگے اور مرجان (کورالز) سمندری حیاتیات کی نرسری ہیں جن کے تحفظ کی کوشش کی جارہی ہیں۔ انہوں نے عوام الناس سے بھی اس مشن کے لیے کچھ وقت نکالنے پر زور دیا۔
آخر میں تمام شرکا میں شیلڈ تقسیم کی گئیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موسمیاتی شدت سے وابستہ کرتے ہوئے نے کہا کہ انہوں نے بتایا کہ
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سندھ نے 646 اساتذہ تدریسی لائسنس تقسیم کردیے
کراچی:وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی اسی طرح عزت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے والدین کی کرتے ہیں کیونکہ ان اساتذہ نے ان کے مستقبل کو سنوارا اور انہیں اپنے شعبے میں مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔
یہ بات انہوں ںے منگل کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام کامیاب امیدواروں کو تدریسی لائسنس دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ تقریب میں وزیر تعلیم سید سردار شاہ، وزیر برائے مویشی پروری محمد علی ملکانی، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن زاہد عباسی، سفارت کاروں، اراکین صوبائی اسمبلی، ماہرین تعلیم، زندگی ٹرسٹ کے شہزاد رائے اور سول سوسائٹی کے ارکان نے شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سندھ تمام صوبوں میں تعلیم کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کرتا ہے، تعلیم پر خرچ دگنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھایا جانا چاہیے تاکہ معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے، اخراجات میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں مزید وسائل پیدا کرنا ہوں گے بصورت دیگر یہ ممکن نہیں۔
مراد علی شاہ نے یاد دلایا کہ تین سال قبل تدریسی لائسنس جاری کرنے کا خیال سردار شاہ کی جانب سے پیش کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ لائسنس ان افراد کو دیے جائیں جو ہمارے مستقبل کو تشکیل دے رہے ہیں۔
تقریب کے دوران وزیر اعلیٰ نے 646 کامیاب امیدواروں کو تدریسی لائسنس دیے جن میں 297 جے ای ایس ٹی (جونیئر ایلیمینٹری اسکول ٹیچر) اور 195 پری سروس لائسنس شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً 4000 امیدواروں میں سے صرف 646 ہی امتحان میں کامیاب ہو سکے جس سے کامیابی کی شرح صرف 16 فیصد ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سندھ ٹیچر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سٹیڈا) کے ذریعے انتہائی قابل اساتذہ متعارف کرائے جائیں گے۔ انہوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ جو بچے اسکولوں میں داخل ہیں ان کو دی جانے والی تعلیم کے معیار کا بھی جائزہ لیا جائے۔
اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے اس دور کو یاد کیا جب پرائمری اسکولز میں معیاری تعلیم فراہم کی جاتی تھی اور اساتذہ کی تقرری میرٹ کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ مراد علی شاہ نے تدریسی لائسنس کے دائرہ کار کو نجی تعلیمی اداروں اور ابتدائی بچپن کی تعلیم (ارلی چائلڈ ہوڈ ایجوکیشن) تک بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یقین دلایا کہ حکومت اس پالیسی کے نفاذ میں درپیش انتظامی رکاوٹوں کو دور کرے گی اور اس کا دائرہ وسیع کرے گی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سردار شاہ نے کہا کہ تدریسی لائسنس کا نفاذ تعلیمی نظام میں نمایاں بہتری لائے گا بعض افراد اس لائسنس کو اساتذہ کے لیے اسلحہ لائسنس سمجھ بیٹھے تھے، آئندہ تمام نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو لائسنس جاری کرنے سے قبل تربیت دی جائے گی اور صرف لائسنس یافتہ اساتذہ کو ہی آئندہ تعینات کیا جائے گا۔
تقریب سے سیکریٹری تعلیم زاہد عباسی، آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر ساجد علی، شہزاد رائے اور سندھ ٹیچر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رسول بخش شاہ نے بھی خطاب کیا۔