آبادی میں خوفناک اضافہ پاکستان کے سیاسی ایجنڈے سے غائب کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
جنوبی ایشیا میں بلند ترین شرح نمو
پاکستانی وزارتِ صحت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں آبادی کی شرح نمو دو اعشاریہ چار فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں ہر ایک خاتون اوسطاً تین سے زائد بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف ایک چوتھائی خواتین ہی مانع حمل طریقوں سے فائدہ اٹھا پا رہی ہیں، جبکہ 17 فیصد خواتین ایسی بھی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کا نظام مکمل ناکامیہ تشویش ماضی کی طرح اب صرف ماہرین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا اعتراف سرکاری طور پر بھی سامنے آ رہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں بے قابو حد تک آبادی کا بڑھنا قومی ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے موجودہ فرسودہ نظام اور کمزور منصوبہ بندی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟
عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘
پبلک پالیسی کے ماہر عامر جہانگیر کہتے ہیں کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے ریاست کے تمام نظاموں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں: ''اس کے منفی اثرات براہِ راست صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور خاص طور پر خواتین اور بچیوں کی زندگیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔
‘‘ آبادی بے قابو، اہداف بے اثرڈاکٹر صوفیہ یونس، ڈائریکٹر جنرل پاپولیشن وِنگ، کے مطابق وزارتِ صحت کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے 2025ء کے اہداف پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک قومی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ سال 2030ء تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.
اسی طرح عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب صحت کا نظام پہلے ہی دباؤ کا شکار ہو اور صنفی پالیسی سازی کے لیے ٹھوس اور تازہ اعداد و شمار موجود نہ ہوں، تو ان اہداف تک پہنچنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔
سیاسی ایجنڈے سے غائبسابق چیئرپرسن این سی ایس ڈبلیو نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی میں تیزی سے اضافے کا مسئلہ کبھی بھی حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں اور نہ ہی اپنے منشور میں شامل کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، وسائل منتشر ہیں اور کوئی حکومت عملی اقدامات نہیں کر رہی۔ نیلوفر بختیار نے احتساب کے فقدان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، مگر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی: ''خواتین اور بچوں کو روزانہ مشکلات اور اموات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی فرد ذمہ داری قبول کرتا ہے، سب کچھ صرف نوٹس لینے تک محدود ہے جبکہ عملی اقدامات کا شدید فقدان ہے۔‘‘ صورتحال انتہائی تشویشناکپاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی صورتحال تشویشناک ہے، جہاں ہر سال لاکھوں خواتین مجبوری میں اسقاط حمل کراتی ہیں، جبکہ مانع حمل سہولیات کی بھی صرف 65 فیصد طلب ہی پوری ہو رہی ہے۔ ماہر امراض نسواں، ڈاکٹر امِ حبیبہ کے مطابق، خاندانی منصوبہ بندی کے ناقص انتظامات اور خواتین کا محدود سماجی کردار پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی بلند شرح کے اہم اسباب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سہولیات کی کمی، مذہبی پابندیاں، اور اسقاط حمل سے متعلق منفی معاشرتی رویے خواتین کو غیر محفوظ طریقے اپنانے پر مجبور کرتے ہیں، جو ان کی صحت اور زندگی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ مسئلہ صرف فنڈز تک محدودڈاکٹر رابعہ اسلم، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ جینڈر اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی کے مطابق، پاکستان میں پالیسی سازوں کے لیے آبادی کے مسئلے کی نشاندہی پہلے ہی کی جا چکی ہے، لیکن یہ معاملہ تاحال صرف علامتی بیانات تک محدود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ آگاہی کا نہیں بلکہ سیاسی عزم کی کمی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ زبانی دعووں سے ہٹ کر خواتین کی صحت، تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کو خاندانی منصوبہ بندی کا محور بنا کر مؤثر اصلاحات کی جائیں۔نیلوفر بختیار نے آبادی کے مسئلے پر ملکی اداروں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بعض تنظیمیں اسے صرف عالمی فنڈز کے حصول کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاپولیشن کونسل کی مثال دی، جس کی برسوں سے موجودگی کے باوجود کوئی مؤثر کارکردگی سامنے نہیں آئی۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں انہوں نے کے مطابق تک محدود کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
کیا یہ ہے وہ پاکستان
بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں فرمایا تھا’’ اقلیتیں جہاں بھی ہوں، ان کے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا، میں نے ہمیشہ یقین کیا اور میرا یقین غلط نہیں ہے۔ کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا یقین دلائے بغیرکامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی، کوئی حکومت ناانصافی اور جانبداری کی بنیادوں پرکھڑی نہیں رہ سکتی، اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدد اس کی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا۔
اقلیتوں میں انصاف و آزادی، امن و مساوات کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرز حکومت کی بہترین آزمائش ہے، ہم دنیا کے کسی متمدن ملک سے پیچھے نہیں رہ سکتے، مجھے یقین ہے جب وقت آئے گا تو ہمارے ملکی خطوں کی اقلیتوں کو ہماری روایات، ثقافت اور اسلامی تعلیم سے نہ صرف انصاف و صداقت ملے گی بلکہ انھیں ہماری کریم النفسی اور عالی ظرفی کا ثبوت بھی مل جائے گا، ہم مول تول نہیں کرتے، ہم لین دین کے عادی نہیں، ہم صرف یقین پر عمل رکھتے ہیں اور صرف تدبر اور عملی سیاست پر اعتماد رکھتے ہیں۔‘‘
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مذکورہ خطبہ کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو سب کچھ برعکس نظر آتا ہے، یہاں تو معماران پاکستان اور محبان وطن کا تحفظ نظر نہیں آتا ہے، قائد اعظم کی توقعات اور ان کی تعلیمات کا مذاق لوگوں پر ظلم و ناانصافی کرکے اڑایا جا رہا ہے، قائد اعظم نے ایک مضبوط پاکستان کا خواب دیکھا تھا کہ تعمیر وطن کے لیے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ یہ ملک پاکستان جوکہ نوزائیدہ مملکت ہے آنے والے دنوں میں یہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگا ہر کسی کو اس کے حقوق دیے جائیں گے اور انصاف کا پرچم بلند ہوگا، خواتین کا احترام ہوگا۔
قائد اعظم قومی زندگی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کے کس قدر قائل تھے انھوں نے ایک موقع پرکہا کہ زندگی کی جدوجہد میں خواتین کو شریک ہونے کا موقعہ فراہم کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ انھوں نے یاد دلایا آپ کو یاد ہوگا کہ پٹنہ کے اجلاس میں خواتین کی ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی انھوں نے خواتین کے حقوق اور ان کی ذمے داریوں کے بارے میں فرمایا خواتین اپنے گھروں میں اور باپردہ رہ کر بھی بہت زیادہ کام کر سکتی ہیں۔
ہم نے یہ کمیٹی اسی غرض سے بنائی تھی کہ وہ مسلم لیگ کے کاموں میں حصہ لے سکیں۔ اس کمیٹی کے فرائض میں عورتوں میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور بیدار کرنا تھا۔ قائد اعظم نے 22 نومبر 1942 کو اسلامیہ کالج فار ویمن کوپر روڈ لاہور میں طالبات سے خطاب کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کیا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک بام عروج پر نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ اس کی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ مصروف کار نہ ہوں، ہم ناپسندیدہ اور بری رسوم کا شکار ہیں۔
یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم کے مترادف ہے، ہماری خواتین قیدیوں کی طرح چار دیواری میں بند ہیں۔ میرا مقصد یہ نہیں کہ مغربی طرز زندگی کی خامیوں اور برائیوں کو اپنا لیں، ہمیں کم ازکم اپنی خواتین کو وہ معیار اور وقار تو مہیا کرنا چاہیے جو اسلامی نظریات کی روشنی میں انھیں ملنا چاہیے۔ اسلام میں اس قابل مذمت صورت حال کی کہیں اجازت نہیں، جس میں ہماری خواتین اس وقت زندگی گزار رہی ہیں۔
پاکستان کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر محمد اقبال نے عورتوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے۔’’ عمومیات کو چھوڑکر اگر خصوصیات پر نظر کی جائے تو عورت کی تعلیم سب سے زیادہ توجہ کی محتاج ہے۔ عورت حقیقت میں تمدن کی جڑ ہے، ماں اور بیوی دو ایسے پیارے الفاظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں مستور ہیں، اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔‘‘ وہ اپنے کلام میں اس کی عظمت اور اس کی موجودگی اس کی اہمیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی دُرّج کا درِّ مکنوں
قائد اعظم نوجوانوں کے جوش و خروش اور ایک علیحدہ وطن اور آزادی کی تحریک میں پیش پیش تھے وہ جانی و مالی ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہے تھے۔ قائد اعظم نے ان کے عزم صمیم اور ہمت مرداں مدد خدا کے جذبے سے بے حد خوش تھے۔تحریک پاکستان کے ایک کارکن حکیم آفتاب حسن قرشی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ایک ملاقات کے دوران میں نے قائد اعظم سے عرض کیا کہ قائد اعظم ! مسلمان نوجوان حصول پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
آپ کی قیادت پر کامل یقین رکھتے ہیں، جب بھی آپ نوجوانوں کو پکاریں گے، انھیں آپ فوج کے ہر اول دستے میں پائیں گے۔ انھوں نے جواباً کہا کہ نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، مجھے ان سے یہی توقع ہے کہ وہ جنگ آزادی میں بیش از بیش حصہ لیں گے، قائد اعظم نے نوجوانوں کی قومی خدمات پر اظہار ستائش کرتے ہوئے فرمایا’’ مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک پاکستان میں نوجوانوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور نوجوان ہی میرے قابل اعتماد سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔
اب ہم قائد اعظم کی جہد مسلسل اور علامہ اقبال کے افکارکا جائزہ لیں تو ہمیں آج کا پاکستان اس میں بسنے والے نوجوان اور خواتین کا استحصال نظر آتا ہے، ظلم و بربریت کی کہانی نے پاکستان کی سرزمین کو خون سے نہلا دیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے، لوٹ مارکی جاتی ہے، قدم قدم پر دشمنان پاکستان گھات لگائے بیٹھے ہیں، قائد اعظم کا بنایا ہوا پاک ملک جس کی بنیاد کلمہ پر قائم ہوئی ہے وہ ملک ناپاک ہو چکا ہے، عزت و تحفظ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔
اب خواتین کو معمولی اور سیاسی و اصولی جنگ کے دوران مارا جاتا ہے، تشدد کیا جاتا ہے، جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، مرد و زن پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں، وڈیرے اور سردار عورت کو سر راہ بہیمانہ قتل کی اجازت دیتے ہیں، باقاعدہ جرگہ بٹھایا جاتا ہے یہاں قانون ہے نہ اسلام ہے نہ انسانیت ہے اور نہ ہمدردی، نکاح کو جرم قرار دے کر صرف ایک عورت اور اس کے شوہر کو ببانگ دہل پچاس لوگوں کا گروہ بیابان و سنسان جگہ لے جا کر قتل کر دیتے ہیں۔
بلوچستان کا واقعہ انسانیت کے پرخچے اڑانے میں آگے رہا، اس سے قبل بھی کارا کاری، نوجوان جوڑوں کو محض پسند کی شادی کرنے پر قتل کیا جاتا رہا ہے ادھر انصاف اور قانون خاموشی اختیار کر لیتا ہے لیکن بے قصور اور محب وطن لوگوں کو بغیر ثبوت کے گرفتار کیا جاتا ہے جیلوں میں ٹھونسا جاتا ہے، جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں محض اپنی حکومت کی بقا کے لیے۔کیا یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان؟ انھوں نے اس مقصد کے لیے قربانی دی تھی؟ لوگ اپنا مال و اسباب اور اپنوں کے لاشے بے گور و کفن چھوڑ کر اپنے ملک میں آئے تھے کہ وہ اب آزاد قوم ہیں لیکن آج جو پاکستان کا حال ہے اسے دیکھ کر ہر ذی شعور آنسو بہا رہا ہے۔ بڑی مشکل میں زندگی کے دن گزار رہا ہے، بھوک، افلاس، بے روزگاری اور عدم تحفظ نے جیتے جی مار دیا ہے۔