اسلام ٹائمز: اسرائیلی طیاروں کی جنوبی دمشق پر بمباری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب شام کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے العریبیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”نیا شام صیہونی حکومت سمیت خطے کے کسی بھی فریق کے لیے خطرہ نہیں ہے“۔ تاہم اپنا اقتدار سلامت رکھنے کے لیے شام کے نئے حکام ہر کسی کے سامنے امن کا راگ الاپ کر کیا خود کو ہر کسی کی نظر میں قابل قبول بنا سکتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے۔ تحریر: سید تنویر حیدر
جولانی فورسز اور شامی دروز کے مابین تنازعے میں اب اسرائیل بھی داخل ہوگیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے دمشق کے مضافات میں ”سہنایا“ کے اندر تین سیکیورٹی اہداف پر بمباری کی ہے جس میں دمشق پر قابض جولانی فورس کے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے جنوبی دمشق کے قصبوں سہنایا اور اشرفیہ سہنایا کے مضافات میں مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر پانچ بار بمباری کی۔ یہ ایسے میں ہے جب دمشق کے مضافات میں دروزی آبادی والے علاقوں پر جولانی فورسز کے حملے کے بعد صیہونی حکامت کے وزیر اعظم نیتھن یاہو اور وزیر دفاع کاٹز (Katz) نے ایک مشترکہ بیان میں دروز قبائل کے دفاع میں موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اسرائیلی فوج نے انتباہی کاروائی کرتے ہوئے شدت پسندوں کے ایک گروہ پر حملہ کیا ہے جو حملے کی تیاری کر رہے تھے“۔
دروز کی حمایت میں اسرائیل کے وزیراعظم یوف کیش نے کہا ہے کہ ”اسرائیل دروز کی حمایت کرتا ہے اور انہیں نقصان نہیں پہنچنے دے گا“۔ حکومت کے توانائی کے وزیر ایلی کوہن نے بھی دروز کے دفاع میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم دروز کے خلاف کسی بھی کاروائی پر خاموش نہیں رہیں گے“۔ مقامی ذرائع کے مطابق جولانی افواج دمشق کے دیہی علاقوں پر اپنے حملوں میں فالکن ڈرونز استعمال کر رہی ہیں۔ مقامی ذرائع نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جولانی افواج کا ایک حصہ شمالی شام میں حما اور ادلب کے دیہی علاقوں سے دمشق کے دیہی علاقوں سہنایا اور جرمانہ کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ساتھ ہی دمشق کے نواح میں واقع شہر جرامنہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق جنوبی دمشق کے قصبوں سہنایا اور اشرفیہ سہنایا کے مضافات میں مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر اب تک کئی بار بمباری ہو چکی ہے۔ اشرفیہ سہنایا ایک شامی شہر ہے جو دمشق سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس شہر کے باشندے دروز ہیں۔ اشرفیہ سہنایا کے باشندوں کی تعداد بیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ترکی اور دمشق سے قربت نیز درعا دمشق شاہراہ گزرنے کی وجہ سے یہاں کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی اثناء میں ذرائع کے مطابق لبنانی دروز نے شام کے شہر جرامنہ میں ہونے والے واقعات کے خلاف احتجاجاً کوہ لبنان کے علاقے عالیہ میں ایک سڑک کو بند کر دیا ہے۔ ان حالات میں لبنان کی پروگریسو سوشلسٹ پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ پارٹی کے سابق سربراہ اور دروز رہنما ولید جمبلات نے شام میں باغی حکومت کے ساتھ ساتھ ترکی، سعودی عرب، قطر اور اردن کے ساتھ گہرے رابطے قائم کیے ہیں اور ان ممالک کے متعلقہ افراد سے اشرافیہ سہنایا کے علاقے میں جنگ بندی کے لیے کام کرنے کی اپیل کی ہے۔
اسرائیلی طیاروں کی جنوبی دمشق پر بمباری ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب شام کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے العریبیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”نیا شام صیہونی حکومت سمیت خطے کے کسی بھی فریق کے لیے خطرہ نہیں ہے“۔ تاہم اپنا اقتدار سلامت رکھنے کے لیے شام کے نئے حکام ہر کسی کے سامنے امن کا راگ الاپ کر کیا خود کو ہر کسی کی نظر میں قابل قبول بنا سکتے ہیں؟ یہ الگ بات ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ شام میں جاری موجودہ خانہ جنگی کے دوران اس وقت تخت شام پر کئی قسم کے لشکر اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگائے ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق ہوئے کہا ہے کہ کے مضافات میں سہنایا کے حکومت کے کے وزیر دمشق کے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کو دہائی کی سب سے بڑی آگ کا سامنا
ترک نشریاتی ادارے انادولو کے مطابق تل ابیب نے بدھ کو شدید گرمی کی وجہ سے لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی امداد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام نے وسطی اسرائیل کے کئی قصبوں کو خالی کرا لیا ہے اور ایک اہم شاہراہ کو بند کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی اسرائیل میں مقبوضہ بیت المقدس کے قریب جنگلات میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، جسے دہائی کی سب سے بڑی آگ قرار دیا جارہا ہے، آتشزدگی کے نتیجے میں کم ازکم 23 افراد زخمی ہوگئے جبکہ مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب کے درمیان شاہراہ کو بند کردیا گیا، صہیونی حکومت نے آگ پر قابو پانے کے لیے عالمی برادری سے مدد مانگ لی۔ ترک نشریاتی ادارے انادولو کے مطابق تل ابیب نے شدید گرمی کی وجہ سے لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی امداد کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام نے وسطی اسرائیل کے کئی قصبوں کو خالی کرا لیا ہے اور ایک اہم شاہراہ کو بند کر دیا ہے۔
اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق، یہ آگ اب 2010 میں کارمل جنگل میں لگنے والی تباہ کن آگ کے پیمانے سے تجاوز کر گئی ہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے کے اے این کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 20 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر دھوئیں سے سانس لینے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ کے اے این نے مزید کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے قریب آصف ہارون ہسپتال نے تصدیق کی ہے کہ 10 افراد کو علاج کے لئے لایا گیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی روزنامہ یدیوت احرونوت نے کہا تھا کہ آگ لگنے سے 12 افراد زخمی ہوئے ہیں، فائر اینڈ ریسکیو سروس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیویہ شالوم، بیکوعہ، تاؤز، ناخشون اور میسلات تزیون کی آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور تیز ہواؤں کی وجہ سے متعدد علاقوں میں بھڑکنے والی آگ کی وجہ سے لوگوں کو نکالنے کا عمل شروع ہوا جبکہ فائربریگیڈ کی 111 ٹیموں اور 11 طیاروں نے آگ بجھانے کی کوششوں میں حصہ لیا۔ کے این نے مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب کے درمیان ایشتول جنگلات کے علاقے میں بھی آگ لگنے کی اطلاع دی۔ حکام نے جنگل کی آگ کی وجہ سے مزید آبادیوں کے ممکنہ انخلا کے لیے ہدایات جاری کی ہیں۔ فائر اینڈ ریسکیو سروس نے آگ کی وجہ سے انتباہ کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے اور مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب کے درمیان لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی مدد طلب کرلی ہے۔ حکام نے احتیاط کے طور پر دونوں شہروں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کو بھی بند کردیا۔
اسرائیل نے یونان، کروشیا، اٹلی اور یونانی قبرصی انتظامیہ سے آگ بجھانے میں مدد کی درخواست کی ہے۔ چینل 7 نے خبر دی ہے کہ اگر ضروری ہو تو فضائیہ کے اڈے غیر ملکی فوجوں کے فائر فائٹنگ طیاروں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیر خارجہ گیدون سار نے آگ بجھانے کی کوششوں میں مدد کے لیے عالمی برادری سے رابطے شرو ع کرددیے ہیں۔ وزیر خارجہ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق گیدون سار نے برطانیہ، فرانس، چیک ری پبلک، سیوڈن، ارجنٹائن، اسپین، شمالی مقدونیا اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ سے رابطے کیے ہیں۔
وزیراعظم آفس، وزارت قومی سلامتی، وزارت خارجہ نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے باضابطہ طور پر یونان، قبرض، کروشیا، اٹلی اور بلغاریہ سے آگ پر قابو پانے میں مدد کی درخواست کی تھی۔ اسرائیلی اخبار ہیوم کی رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی وجہ سے جنوب میں اشدود اور اشکلون کے درمیان ٹرین سروس معطل کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے مسافروں کو جہاز سے اترنا پڑا ہے۔ دریں اثنا اسرائیلی وزیر ٹرانسپورٹ میری ریگیو نے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی ہیں کہ اگر ملک کے بجلی کے گرڈ کو جنگل کی آگ سے نقصان پہنچتا ہے تو ڈیزل سے چلنے والی ٹرینوں کو تعیناتی کے لیے تیار رکھا جائے۔
مقبوضہ بیت المقدس کے ڈسٹرکٹ فائر اینڈ ریسکیو کمانڈر شملک فریڈمین کا کہنا ہے کہ یہ جنگلات کی آگ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی آگ ہو سکتی ہے۔ وزیر دفاع کاٹز نے ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے فوج کو مقبوضہ بیت المقدس کے پہاڑی علاقے میں فائر فائٹرز کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ چینل 12 کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگل کی آگ کی وجہ سے تمام طے شدہ ”یوم آزادی“ کی تقریبات منسوخ کردی ہیں۔ گذشتہ ہفتے اسرائیلی ریسکیو حکام نے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور تیز ہواؤں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جنگلات میں لگی آگ کے درمیان وسطی اسرائیل کے متعدد قصبوں سے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا تھا، جس میں 10،000 دونم (2،500 ایکڑ) تباہ اور نو افراد زخمی ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کے قریب شاہراہوں پر دھواں اٹھنے لگا جب فائر فائٹرز جنگل کی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں اور وزیر دفاع کاٹز نے صورتحال کو ’قومی ہنگامی حالت‘ قرار دے دیا ہے۔ اسرائیل کی میگن ڈیوڈ اڈوم ریسکیو ایجنسی نے بتایا ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو برسوں کی بدترین فائرنگ کا خطرہ لاحق ہے اور کاٹز نے فائر فائٹرز کی مدد کے لیے فوجیوں کو تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایم ڈی اے نے کہا کہ اس نے تقریبا 23 افراد کو علاج فراہم کیا ہے ، جن میں سے 13 کو اسپتال لے جایا گیا ہے۔
جن میں سے زیادہ تر دھوئیں میں سانس لینے اور جلنے سے متاثر ہیں۔ ان میں دو حاملہ خواتین اور ایک سال سے کم عمر کے دو بچے بھی شامل ہیں۔ کاٹز نے اپنی وزارت سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمیں قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اور زندگیاں بچانے اور آگ پر قابو پانے کے لیے تمام دستیاب فورسز کو متحرک کیا جانا چاہیے۔‘ پولیس نے یروشلم سے تل ابیب جانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا ہے اور اس راستے کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے کیونکہ ایک ہفتہ قبل آتشزدگی سے تباہ ہونے والے علاقے میں ایک بار پھر آگ بھڑک اٹھی تھی۔ ہزاروں لوگوں کی رہائش گاہوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔