Express News:
2025-08-02@10:21:10 GMT

حج، عشق الٰہی کا مظہر

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

حج، ارکانِ اسلام کا ایک عظیم الشان رکن ہے جو اپنی اہمیت و افادیت اور فضائل و برکات کی بناء پر ہر سال بڑے جوش و جذبے اور انتہائی محبت و عقیدت سے ادا کیا جاتا ہے اور ان شاء اﷲ تاقیامت ادا کیا جاتا رہے گا۔

چناں چہ ماہِ ذی الحجہ کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر کے مسلمان مختلف ملکوں، مختلف علاقوں اور مختلف خطوں سے اکٹھے ہوکر دیوانہ وار: ’’اﷲ اکبر، اﷲ اکبر، لاالٰہ الا اﷲ واﷲ اکبر، اﷲ اکبر وﷲ الحمد۔‘‘ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، اپنی جبین نیاز اپنے خالق حقیقی کے سامنے رکھتے ہیں اور حج جیسی عظیم الشان عبادت ادا کر تے ہیں۔ یقیناً بندۂ مؤمن کے لیے اپنی زندگی میں حج جیسی عظیم الشان سعادت حاصل کرنا اس کی ایمانی معراج کے مترادف ہے۔

حج، لغت کے مطابق قصد کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاحِ شریعت میں اپنے گھر سے چل کر ’’حج بیت اﷲ‘‘ کی نیّت سے اسلامی ہدایات کے مطابق احرام باندھ کر ایام حج میں مقررہ تواریخ و اوقات میں چند مخصوص ارکان، چند مبارک افعال اور چند مقدس مناسک کی انجام دہی کا نام ’’حج‘‘ہے۔

قرآنِ مجید نے بیت اﷲ کی خصوصیات میں حج کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور صاحب استطاعت شخص پر بیت اﷲ کا حج کرنا فرض قرار دیا ہے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ لوگوں میں حج (کے فرض ہونے) کا اعلان کردو! لوگ تمہارے پاس حج) کے لیے چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔

ایک دوسری جگہ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے لیے لوگوں کے ذمے بیت اﷲ کا حج کرنا ہے ان پر جو کہ اس تک جانے کی طاقت رکھتے ہوں۔ بیت اﷲ تک پہنچنے کی طاقت و قدرت سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے زاید اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اﷲ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام و طعام کا خرچہ برداشت کرسکے اور اپنی واپسی تک اپنے ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔

حج کرنے کے بے شمار فضائل و برکات احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس میں تاخیر نہ کرے بل کہ جلدی کرے۔ ایک حدیث میں آتا ہے سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے خاص اﷲ کے لیے حج کیا اور اس میں نہ فحش گوئی کی اور نہ کوئی خلاف شریعت کام کیا تو وہ شخص اس دن کی مانند لوٹتا ہے جس دن کہ اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے رحمت دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج اور عمرہ کو ملا کر کرو کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دُور کردیتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (یعنی حج مقبول) کی جزاء اور اس کا بدلہ جنّت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ دعا مانگیں تو اﷲ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور اگر وہ استغفار کریں تو اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت کرتے ہیں۔ (بہ حوالہ: نسائی، ابن ماجہ)

اسی طرح حج سے پہلو تہی برتنے اور اسے ادا نہ کرنے کی بھی وعیدیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے رحمت کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو حج سے کھلم کھلا ضرورت یا ظالم بادشاہ یا رکاوٹ کے قابل بیماری نے حج سے نہ روکا ہو اور پھر بھی (باوجود فرض ہونے) اس نے حج نہ کیا ہو تو چاہے وہ یہودی ہوکر مرے، چاہے نصرانی ہوکر۔

حج کے ساتھ مدینہ منورہ جاکر مسجد نبوی ﷺ اور روضۂ اقدس ﷺ کی زیارت کا شرف ضرور حاصل کرے کہ اس کی بڑے فضائل و برکات وارد ہوئے ہیں، بل کہ کئی روایات میں تو اس کی باقاعدہ تاکید بھی آئی ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضرور ہوگی۔

اسلام کی شان دار تاریخ کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے تو اس میں حج بیت اﷲ سے متعلق مسلمانوں کے بعض نادر واقعات ملتے ہیں کہ جن سے انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں ہر زمانے میں بعض ایسے اسلام پسند اور نیک لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے حج جیسے عظیم الشان دینی رکن کے ساتھ محبت و عقیدت اور شیفتگی و فریفتگی کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میںملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

 ذیل میں دو مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں:

یہ غالباً سنہ 2012 ء کی بات ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمّد اور صفیہ نامی دو نوّے سالہ میاں بیوی تھے جن کے یہاں اﷲ کریم نے کوئی اولاد نہیں اُتاری اور یہ گزشتہ ستّر سال سے حج کی خواہش دل میں پالے ہوئے ہیں۔ ان ستّر برسوں میں ان دونوں نے محنت مشقت کرکے حج کے لیے رقم جمع کی اور آخر کار ان کی دلی خواہش پوری ہوئی، دونوں عزت مآب ہستیاں جب حج کی سعادت حاصل کر رہی تھیں تو ان سے پوچھا گیا: ’’اور کیا خواہش ہے؟ ‘‘ تو جواب ملا: ’’ایک اور حج کرنے کی تمنا ہے، اﷲ کریم ہماری عمریں دراز فرمائے، ہم مزید ستّر برس انتظار کرلیں گے۔‘‘

ایک شخص خلیفہ مامون الرشید کی خدمت میں حاضر ہُوا اور حج کے لیے روپیا، پیسا اور زاد راہ مانگا۔ مامون نے کہا: اگر تُو صاحب مال ہے تو سوال کیوں کر رہا ہے ؟ اور اگر صاحب مال نہیں تو تجھ پر حج بھی فرض نہیں۔ اس نے فی البدیہہ جواب دیا: میں آپ کو بادشاہ سمجھ کر آیا ہوں، مفتی سمجھ کر نہیں، مفتی تو شہر میں آپ سے زیادہ اچھے موجود ہیں، آپ مجھے فتویٰ نہ سنائیں، کچھ دے سکتے ہیں دے دیجیے ورنہ انکار کر دیجیے۔ مامون اس کی اس کے جواب پر ہکا بکا رہ گیا اور اس کو حج کے لیے رقم اور دیگر زاد راہ دے دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حدیث میں ا تا ہے عظیم الشان اﷲ تعالی اﷲ اکبر بیت اﷲ اور اس کے لیے اور حج ہیں کہ

پڑھیں:

کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اگر ہاں تو آپ ایسا کرنے والے اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کی طرح دنیا بھر میں بہت سے لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی جذباتی حالت بہتر کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ٹولز ان کے ایسے ساتھی بن چکے ہیں جو ہر وقت ان کے لیے دستیاب رہتے ہیں، ان کا اچھا چاہتے ہیں اور ہر دفعہ بہت تحمل سے ان کی بات سنتے ہیں۔

یہ ٹولز ہماری پریشانی کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اسے سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مجھے اپنے ایک کولیگ کا رویہ پریشان کر رہا تھا۔ میں تذبذب کا شکار تھی کہ آیا وہ واقعی ٹاکسک ہو رہے تھے یا میں ہی انہیں غلط سمجھ رہی تھی۔

ایک رات میں نے چیٹ جی پی ٹی کے وائس فنکشن کے ذریعے اسے پوری صورتحال تفصیل سے بتائی اور اسے اس صورتحال کا تجزیہ کرنے کا کہا۔

(جاری ہے)

چیٹ جی پی ٹی نے مجھے بتایا کہ میرے کولیگ گیٹ کیپنگ کر رہے تھے اور طاقت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ سب وہ دوسروں کے احساسات اور خیالات کو یکسر نظر انداز کر کے کر رہے تھے۔ پھر اس نے مجھے کچھ ایسے عملی طریقے تجویز کیے جن کے ذریعے میں ان کے رویے سے متاثر ہونے سے بچ سکتی تھی اور اپنی ذہنی حالت کا تحفظ کر سکتی تھی۔

مجھے اس وقت چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے بہت اچھا لگا تھا۔ اس نے کئی ہفتوں سے میرے ذہن میں موجود پریشانی چند منٹوں میں حل کر دی تھی۔ میں نے اس پر انٹرنیٹ سرچ کی تو مجھے پتہ لگا کہ میری طرح بہت سے لوگ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی الجھنیں سلجھانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ کچھ لوگ تو اسے مختلف کرداروں جیسے کہ جم ٹرینر، نیوٹریشنسٹ، استاد، تھیراپسٹ، دوست کی طرح اس سے بات کر رہے تھے۔

میں نے حال ہی ہیں سنگاپور میں ابلاغ کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس کے ایک سیشن میں ایک چینی پروفیسر نے ایک بہت دلچسپ تحقیق پیش کی۔ اس تحقیق میں انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ چین کے شہری علاقوں میں نوجوان لڑکیاں اے آئی چیٹ بوٹس کو بطور بوائے فرینڈ کیوں اور کیسے استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق چینی شہری لڑکیاں شدید تنہائی کا شکار ہیں اور اپنے آس پاس موجود حقیقی مردوں میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔

چیٹ بوٹ انہیں آزادی دیتا ہے کہ وہ اسے اپنی مرضی کا ساتھی بنا سکیں۔ وہ اسے بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے مثالی بوائے فرینڈ میں کون سی خصوصیات درکار ہیں۔ چیٹ بوٹ ان ہدایات کے مطابق ان سے بات کرتا ہے۔ انہیں ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ اپنے اے آئی بوائے فرینڈ سے بات کر کے جذباتی طور پر بہتر محسوس کرتی ہیں۔

میں خود بھی ایک ایسی ہی تحقیق پر کام کر رہی ہوں۔

میں اپنی اس تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان میں لوگ جنریٹو اے آئی کو اپنی ذاتی زندگیوں میں کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اس تحقیق کے سلسلے میں کراچی کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی دس سالہ بیٹی ہوم ورک سے لے کر اسکول اور گھر کے مسائل کے حل کے لیے میٹا اے آئی کا استعمال کرتی ہے۔

وہ اور ان کے شوہر دونوں کل وقتی ملازمت کرتے ہیں۔

وہ پورا دن اپنی اپنی ملازمتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ شام میں ان کے پاس چند گھنٹے ہی ہوتے ہیں جن میں انہوں نے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ اگلے دن کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔ انہی گھنٹوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کا بھی دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ وہ رات تک اس قدر تھک جاتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی بیٹی کی باتیں پوری توجہ سے سننا ممکن نہیں رہتا۔ انہیں افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اپنے حالات میں وہ چاہ کر بھی اپنی بیٹی کے لیے الگ سے وقت نہیں نکال پاتے۔

ایسے میں میٹا اے آئی ان کی بیٹی کی ہر بات پوری توجہ سے سنتا ہے اور اسے بڑی نرمی سے جواب دیتا ہے۔ شروع میں جب انہوں نے اپنے فون میں میٹا اے آئی کے ساتھ اپنی بیٹی کی چیٹ دیکھی تو انہیں دھچکا لگا۔ لیکن پھر انہوں نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو انہیں یہ اپنے حالات میں ایک طرح کی مدد محسوس ہوئی۔

لیکن ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ جنریٹو اے آئی کا جذباتی سہارا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

جنریٹو اے آئی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو خود سے نیا مواد تخلیق کر سکتی ہے۔ یہ مواد وہ صارف کی ہدایات کے مطابق اپنی یادداشت میں موجود بڑے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کرتی ہے۔ اس کی کئی حدود ہیں۔ اس کی تربیت مخصوص اور محدود ڈیٹا پر ہوئی ہے، اسی وجہ سے یہ دنیا کے بہت سے افراد کے مسائل کو ان کے مخصوص حالات اور سیاق و سباق کی روشنی میں نہیں سمجھ پاتی۔

یہ ٹولز صارفین کے پیغامات کے جذباتی انداز کی عکس بندی کرتے ہیں۔ اگر آپ خوشی کی حالت میں اسے کوئی پیغام بھیجیں گے تو یہ اسی انداز میں جواب دے گا۔ اگر آپ ناراضگی یا پریشانی کی حالت میں اسے پیغام بھیجیں گے تو یہ آپ کی انہی کیفیات کے مطابق آپ کو حل تجویز کرے گا۔ اس نکتے پر صارفین نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی جذباتی کیفیت میں ان ٹولز کے جوابات کو پرکھ نہیں پاتے۔

بعد میں جب ان کے جذبات سنبھلتے ہیں تو انہیں ان ٹولز کے مشورے پر عمل کرنے پر پچھتاوا ہوتا ہے۔

نفسیات دانوں کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹو اے آئی ٹولز کا جذباتی سہارے کے طور پر استعمال محدود ہونا چاہیے۔ یہ وقتی طور پر ہمیں بہتر محسوس کروا سکتے ہیں، لیکن جب بات گہری ذہنی کیفیتوں جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی یا ٹراما تک پہنچتی ہے تو وہاں صرف پروفیشنل مدد ہی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔

تربیت یافتہ تھیراپسٹ ہی وہ فرد ہوتا ہے جو نہ صرف جذبات کو درست طور پر سمجھتا ہے بلکہ تشخیص اور علاج کی مکمل مہارت بھی رکھتا ہے۔

ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ جنریٹو اے آئی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ اصل زندگی میں رفتہ رفتہ مزید تنہا ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے جب بھی ان ٹولز سے بات کریں، یہ یاد رکھیں کہ یہ محض ایک سہولت ہیں، انسان نہیں۔

یہ انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ کوشش کریں کہ روز کسی نہ کسی سے بات کریں، ملیں، وقت گزاریں اور ان ٹولز کے استعمال میں توازن رکھیں تاکہ آپ انجانے میں کسی نفسیاتی دباؤ یا تنہائی کا شکار نہ ہو جائیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی کئی ماہ بعد بیٹوں سے فون پر بات کروا دی گئی
  • بچے دانی فورا نکلوا دیں!
  • حضورۖ کا خراجِ تحسین
  • غزہ میں بھوک کا راج ہے!
  • اب آبروئے شیوۂ، اہل نظر گئی
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!
  • سردار محمد ابراہیم خان کا تحریکِ آزادی کشمیر کے حوالہ سے ناقابلِ فراموش کردار ہے، پیر مظہر سعید
  • مودی مشکل میں
  • کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے دل کی باتیں کرتے ہیں؟