Juraat:
2025-11-03@00:30:32 GMT

غزہ میں بھوک کا راج ہے!

اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT

غزہ میں بھوک کا راج ہے!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے

اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سفید جھوٹ بولا کہ غزہ میں غذائی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں جب کہ اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ٹی وی اسکرین پہ نظر آنے والے بھوک سے نڈھال بچے اداکاری نہیں کر رہے بلکہ غزہ میں غذائی بحران واضح نظر آرہا ہے۔ افسوس کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے حل کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دی جبکہ غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش بمباری جیسی جان لیوا ہو گئی ہے، جہاں اقوام متحدہ کے عملے کی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے والی اطلاعات نے شہریوں کے بقا کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انروا کے مطابق غزہ میں طبی عملے صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت سبھی بھوک اور تھکاوٹ سے نڈہال ہیں۔ خوراک کی تقسیم کے لیے غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے قائم کردہ مراکزگویا موت کا پھندہ بن گئے ہیں، جہاں نشانہ باز لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جیسے انہیں ہلاک کرنے کا لائسنس ملا ہو،ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کا قائم کردہ یہ متبادل امدادی نظام دراصل بڑے پیمانے پر لوگوں کو شکار کرنے کا منصوبہ ہے، جس پر کسی سے باز پرس نہیں ہوتی ۔اس صورتحال کو نیا معمول بنانے نہیں دیا جا سکتا ۔امداد کی تقسیم کرائے کے فوجیوں کا کام نہیں ۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق او ایچ سی ایچ ار کے مطابق 21مئی کو غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر امدادی تقسیم شروع ہونے کے بعد وہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 1000زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ 21جولائی تک خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,054لوگوں کی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ ان میں 766 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ہلاک ہوئے جبکہ 288شہری اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اور دیگر واقعات میں مارے گئے۔ غزہ میں رہن سہن کے حالات بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں، جہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء 4000فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ گھر بار کھونے اور کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علاقے کی تقریبا تمام آبادی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے جس کا حصول زندگی کا خطرہ مول لیے بغیر ممکن نہیں ۔عالمی پروگرام برائے خوراک ڈبلیو ایف پی کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کوقحط جیسے حالات کا سامنا ہے، جہاں تقریبا ایک لاکھ خواتین اور بچے انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ڈائپر کی قیمت تین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات میں بیشتر مائیں پولی تھین کے بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں مزید سکڑ گئی ہیں۔ ادارے کی عمارتوں پر تین حملے کیے گئے جبکہ وہاں پناہ لیے لوگوں سے بدسلوکی کی گئی اور ایک بڑے گودام کو تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیل کی فوج ڈبلیو ایچ او کی عمارت میں بھی داخل ہو گئی ،جس سے عملے اور بچوں سمیت ان کے خاندانوں کو سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ساحلی شہر المواسی کی جانب پیدل نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ۔عملے کے ارکان کوبرہنہ کر کے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کی تلاشی لی گئی اور ایک رکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال زیر حراست ہے۔ تصور کریں 21ماہ سے جاری جنگ میں تقریبا ڈیڑھ ہزار طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور 94فیصد طبی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ نصف ہسپتال غیر فعال ہو گئے ہیں۔ 18مارچ کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے ہنگامی طبی مدد پہنچانے والی بیشتر ٹیموں کو غزہ میں آنے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے جن لوگوں کے ویزے مسترد کیے گئے ان میں 58غیر ملکی معالجین شامل ہیں۔ انروا کے کمشنر جنرل فلپ لار ارینی کو مارچ 2024میں غزہ آنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں نہ تو دوبارہ علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی انہیں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے لیے ویزا جاری کیا گیا۔ انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقائق سے آگاہی کے لیے صحافیوں کو غزہ میں رسائی ملنی چاہیے تاکہ علاقے کی ہولناک صورتحال دنیا کے سامنے ا سکے۔ غزہ میں فری لانس فلسطینی صحافیوں کو زمینی حقائق رپورٹ کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کا میدان ہو یا اور کوئی طوفانی صورتحال صحافی اپنی جان پہ کھیل کر بے خبر لوگوں کو باخبر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خبر دینے والے صحافی خود خبر بن گئے ہیں ۔اس وقت فلسطینی صحافیوں کو جن بحرانوں کا سامنا ہے، اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ کس طرح اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اکثر ان کے دو یا اس سے بھی زیادہ دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں ۔اس پورے عرصے میں اپنے کیمرے بند نہیں کیے اور اہم فوٹیج بھیجتے رہے ،یہاں تک کہ ان دنوں میں بھی جب ان کے قریبی رشتہ دار مارے گئے۔ ان کے گھر بار ان سے چھین لیے گئے یا وہ اپنے خاندانوں سمیت اسرائیلی فوجی پیش قدمی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ دربدر ہوتے رہے۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے یہ صحافی بری طرح زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ حالیہ وقت میں جو گزر رہا ہے وہ سب سے مشکل ہے ۔یہ مصائب اور محرومیوں کا بہت بڑا بحران ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلسل سوچتے رہتے ہیں کہ اپنے خاندان کے لیے خوراک کیسے حاصل کریں۔ وہ کھانا اور پانی مانگتے ہیں اور ہم اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں جو بھی پانی ملتا ہے وہ آلودہ ہوتا ہے۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں کام کرنے والے مقامی فری لانس صحافیوں کی خیریت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں ۔کئی مہینوں سے یہ آزاد صحافی غزہ میں زمین پر دنیا کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں ۔انہیں اب انہی سنگین حالات کا سامنا ہے جن کو وہ کور کر رہے ہیں۔ ان صحافیوں نے زمینی حقائق کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا اگرچہ جنگ کے دوران خوراک کی قلت ایک مستقل مسئلہ رہی ہے لیکن اس سے قبل جو لوگ باہر سے تنخواہیں وصول کرتے تھے، وہ مقامی مارکیٹوں سے بنیادی ضرورت کا سامان خرید سکتے تھے۔ اگرچہ وہ انہیں بہت زیادہ مہنگا ملتا تھا تاہم اب تو وہ بازار بھی کافی حد تک خالی نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پانی میں تھوڑا سا نمک ملا کر پینا شروع کر دیا۔
برطانیہ سمیت 28 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور امداد کی ڈرپ فیڈنگ بند کرے ۔100سے زیادہ امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپ نے کہا کہ اب سپلائی مکمل طور پر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اپنے ساتھیوں اورشراکت داروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھ رہی ہیں۔ صحافی جنگی علاقوں میں بہت سی محرومیوں اور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں شدید تشویش ہے کہ بھوک کا خطرہ بھی اب ان میں سے ایک ہے۔ انٹیگرینڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی آئی پی سی نے ایک انتباہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس وقت قحط کی بدترین صورتحال چل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ جائزے کے انتبا ہ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بھوک غذائیت کی کمی اور بیماریاں بھوک سے متعلق اموات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ غزہ کی تقریبا 2.

1ملین فلسطینیوں کی آبادی قحط کے سنگین خطرے سے دوچار ہے اور انہیں خوراک کے عدم تحفظ کی انتہائی سطح کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کہہ دیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا راج ہے جو معصوم انسانی جانوں کو نگل رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے لیے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں لیکن اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے کا سامنا ہے کہ غزہ میں ہے کہ غزہ کے مطابق کو غزہ کے لیے

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • سندھ میں ڈینگی کے بڑھتے کیسز، پی ڈی ایم اے کا امدادی سامان روانہ
  • حیدرآباد ، محکمہ تعلیم کے ملازمین سراپا احتجاج ، بھوک ہڑتال جاری
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا
  • تجدید وتجدّْد
  • فنڈز کی کمی اور سیاسی تعطل: امریکا میں بھوک کا نیا بحران سر اٹھانے لگا
  • حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر، 4 کروڑ امریکی شہری خوراکی امداد سے محروم
  • امریکہ، حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر