عالمی برادری کا نئے امریکی ٹیرفس پر شدید ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 2nd, August 2025 GMT
عالمی برادری کا نئے امریکی ٹیرفس پر شدید ردعمل WhatsAppFacebookTwitter 0 2 August, 2025 سب نیوز
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 69 تجارتی شراکت دار ممالک پر نئے ٹیرفس کا اعلان کیا ہے جو 7 اگست سے نافذ ہوں گے۔ہفتہ کے روز عالمی میڈیا کے مطابق جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے یکم اگست کو اس فیصلے کو “یورپی صنعت کے لیے تکلیف دہ” قرار دیتے ہوئے اسٹیل ٹیرفس پر مذاکرات کا اعلان کیا،
یورپی یونین کی مذاکراتی پوزیشن یہ ہے کہ وہ مکمل پیمانے پر تجارتی تنازع شروع نہیں کرنا چاہتی ، کیونکہ اس کا نتیجہ صرف نقصان کی صورت میں برآمد ہو گا، اور سب سے بڑا نقصان یورپ کو ہوسکتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کی صدر کیرن کیلر سوتر نے 39 فیصد ٹیرف پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ فیصلہ نہ صرف مینوفیکچرنگ اورگھڑی سازی کی صنعت کو تباہ کرے گا بلکہ عالمی معیشت کو بھی نقصان پہنچائے گا۔برازیل کے وزیر خزانہ فرنینڈو ہاڈاڈ نے واضح کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، اور ناکامی کی صورت میں ڈبلیو ٹی او اور امریکی عدالتوں میں اپیل کریں گے۔ برازیل کی حکومت قومی خودمختاری اور معیشت کے دفاع کے لئے اقدامات کرے گی۔ جنوبی افریقہ کے صدر سائریل رامافوسا نے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے “تمام سفارتی وسائل بروئے کار لانے” کا عہد کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کا یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور چین کا یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور پائیدار ترقی میں چین کا اہم کردار ہے،اقوام متحدہ چین کے نائب وزیر اعظم کی قیادت میں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری سکیورٹی خدشات، اسرائیل کا یو اے ای سے سفارتی عملہ واپس بلانے کا فیصلہ غزہ میں خونریزی کا نیا سلسلہ: ایک دن میں 111 شہید، بھوک سے مزید اموات صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ ختم کروائی، نوبل انعام ملنا چاہیے، وائٹ ہاؤسCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔