اب آبروئے شیوۂ، اہل نظر گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
اس میں تو اب کوئی شک نہیں کہ تعلیم اور صحافت دونوں تجارت بن گئی ہیں، لیکن آج ہم صرف تعلیم پر بات کریں گے۔ گزشتہ ہفتے ایک اسٹوری توجہ کا مرکز بن گئی، سوچا اپنے قارئین کو بھی اس میں شامل کر لوں۔ پہلے کہانی سن لیجیے بعد میں دیگر معلومات پر بات کریں گے۔
ایک گھر میں والدین اور ایک ان کی اکلوتی بیٹی، پیاری سی، خوش شکل، پڑھنے میں تیز اور قابل، ہمیشہ اپنی کلاس میں فرسٹ آتی تھی، میٹرک میں اپنے اسکول میں ٹاپ کیا، کالج گئی تو یہ ایک گرلز کالج تھا، وہاں بھی اس کا تعلیمی سفر کامیابی سے جاری رہا۔ انٹر کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں بیٹی کی خواہش پر اس لیے داخلہ کروا دیا تاکہ اس کے خواب پورے ہوں، اس بچی نے تعلیمی میدان میں کبھی اپنے والدین اور اساتذہ کو مایوس نہیں کیا تھا۔
والدہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی جانے کے دو تین ماہ بعد بیٹی کے مشاغل بدل گئے۔ اب ہر ہفتے کی رات یونیورسٹی کے فنکشن ہونے لگے، وہ ضد کرکے فنکشن میں جاتی اور گھر آ کر زیادہ دیر تک سوتی رہتی، اکثر یونیورسٹی بھی نہ جاتی۔ البتہ یونیورسٹی کے فنکشن میں ضرور جاتی، مڈل کلاس فیملی تھی، پہلے تو فنکشن کے بعد والد اسے لینے جاتے، اس کے بعد وہ اپنی کلاس فیلو لڑکیوں کے ساتھ واپس آنے لگی۔
ماں نے اس کے رویے میں نمایاں فرق محسوس کیا، جب ماں اسے زیادہ سونے پر ٹوکتی تو وہ کہتی کہ’’ اب میں بڑی ہو گئی ہوں، مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ کرنا بند کر دیجیے‘‘ جس پر والد نے گھر دیر سے آنے پر جب اس سے باز پرس کی تو اس نے بدتمیزی کی، باپ نے غصے میں آ کر اسے دو تین تھپڑ لگا دیے، جو والدہ کو بہت برے لگے۔ وہ اپنے کمرے میں جا کر بند ہوگئی اور کھانے کے لیے بھی باہر نہ آئی، جب ماں نے دروازہ ماسٹر کی کی مدد سے کھولنا چاہا تو اس نے کرسیاں اور اپنی رائٹنگ ٹیبل دروازے کے ساتھ لگا دیں تاکہ دروازہ نہ کھل سکے۔
ماں نے پیار سے اٹھایا تو وہ بہ مشکل اٹھی لیکن اس نے باہر جانے سے انکار کر دیا۔ ماں نے باپ سے کہا تو انھوں نے غصے سے کہا کہ ’’ جب اسے بھوک لگے گی تو خود کھا لے گی‘‘ ماں نے کھانا کمرے میں پہنچا دیا جسے اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ باپ نے آ کر ماں کو سخت سست سنایا اور کھانے کی ٹرے لے کر لاؤنج میں لے جا کر رکھ دی اور بیوی کو بھی وہاں سے اٹھا کر لے آئے۔
لڑکی نے دوبارہ دروازہ بند کر دیا، رات بھر ماں باپ کو پریشانی کے سبب نیند نہیں آئی، اگلے دن جب وہ یونیورسٹی جانے کے لیے نہ اٹھی تو ماں نے زبردستی دروازہ کھولا تو اندرکا منظر دیکھ کر سہم گئیں۔ لڑکی فرش پہ اوندھے منہ پڑی تھی، دو تین سگریٹ جلے ہوئے پڑے تھے۔ انھوں نے شوہر کو اندر بلایا، پھر بڑی مشکل سے بے ہوش بچی کو لے کر اسپتال بھاگے، ڈاکٹر نے جو بتایا اسے سن کر وہ حیرت زدہ ہو گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی بیٹی خطرناک قسم کا نشہ کرتی ہے، یہ ایسا نشہ ہے جو بہت مہنگا ہے اور آپ کی بیٹی کافی عرصے سے یہ نشہ کر رہی ہے۔
ماں باپ پریشان حال لڑکی کو لے کر گھر آئے اور پھر دونوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملے اور انھیں ساری صورت حال بتائی، تو پتا چلا کہ وہ تو کبھی کبھار یونیورسٹی آتی ہے اور اس کے بعد مزید انکشافات ہوئے۔ پتا چلا کہ کچھ لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک گروپ ہے جو یونیورسٹی میں ہونے والے تمام فنکشن کی نگرانی کرتا ہے۔
ان طلبا و طالبات سے پتا چلا کہ ان کی بیٹی ہر ہفتے ہونے والے مختلف فنکشن میں حصہ لیتی تھی، پھر پتا نہیں کیا ہوا انھیں بھی نہیں پتا، اور یہ بھی پتا چلا کہ ہر ہفتے ہونے والے فنکشن یونیورسٹی کے نہیں تھے بلکہ ان فنکشنز میں باہر کے گروپ بھی شامل تھے جو نئی آنے والی لڑکیوں اور لڑکوں کو Well Come پارٹی دیتے تھے۔
پھر فنکشن میں جوس اور کولڈ ڈرنک میں نشہ ملا کر انھیں پینے کو دیتے تھے۔ پھر یہ ان لڑکیوں کو کہیں لے جا کر ان کی نازیبا ویڈیوز بھی بناتے تھے اور انھیں نشے کا عادی بنا کر غیر اخلاقی کام کرواتے تھے۔ اگر کوئی لڑکی ان کی بات ماننے سے انکار کرتی تو وہ اسے ان کی نازیبا ویڈیوز بھیج کر بلیک میل کرتے، لڑکیوں کو چونکہ مہنگے نشے کی لت لگ جاتی تھی اس لیے اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے وہ ان لڑکوں کی ہر بات ماننے پر مجبور تھیں، یہ سب باتیں اس متاثرہ لڑکی نے ڈاکٹر کو بتائیں۔ کیوں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھنس چکی تھی، لڑکی متوسط گھرانے کی تھی اس لیے ڈر گئی اور ہر بات بتا دی۔
اگر آزاد خیال گھرانے یا نام نہاد اپر کلاس سے اس کا تعلق ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیوں کہ اپر کلاس میں نشہ کرنا معمول کی بات ہے۔ ڈاکٹر نے ماں باپ کو سب بتایا اور ان سے نرم رویہ رکھنے کی استدعا کی۔ ڈاکٹر صاحب نے لڑکی کو ایک Rehabilitaion Center میں داخل کرانے کا مشورہ دیا کہ کہیں نشے میں وہ اکیلی نہ رہ جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ نشے کی اس حد تک عادی ہو چکی تھی کہ اس کا علاج گھر پر ہونا ناممکن تھا۔ ماں باپ بے چارے سکتے کے عالم میں تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو کسی ری ہیب سینٹر میں داخل کرانے کے خلاف تھے، لیکن اور کوئی چارہ نہ تھا۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر پتھر رکھ کر اجازت دے دی۔
آج کل تعلیمی اداروں کا ماحول بہت بگڑ گیا ہے۔ نشے کے سگریٹ پینا یونیورسٹیوں میں اور کالجوں میں عام ہے۔ ارمغان کیس میں بہت کچھ سامنے آ چکا ہے۔ بڑے بڑے مال دار لوگ یہ دھندا کر رہے ہیں۔ اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کے سارے کرتوت سب کے سامنے آ چکے ہیں۔ ’’ایزی منی‘‘ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ایزی منی صرف غلط اور غیر قانونی کاموں میں ہے۔ دراصل صرف پیسے کی عزت ہے، چاہے وہ کسی بھی غلط کام سے کمایا گیا ہو۔ یونیورسٹیاں تعلیم نہیں دے رہیں بلکہ طلبا و طالبات کے درمیان امیری اور غریبی کا ایک فاصلہ پیدا کر رہی ہیں۔
محروم افراد جب اپنے ہی جیسے لوگوں کا لائف اسٹائل دیکھتے ہیں تو ان کے اندر احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہی احساس محرومی کسی کو غنڈا بنا دیتا ہے، کسی کو رشوت خور اور کسی کو چور۔ کیوں کہ سب یہ جانتے ہیں کہ طاقتور بننے کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے۔ اسی پیسے کی وجہ سے بااثر افراد کسی کو بھی ’’ دو ٹکے ‘‘ کا کہہ دیتے ہیں۔ یہ پاکستان ہے، امیروں کی جنت اور غریبوں کے لیے دو پاٹن کے بیچ پس جانے والی مخلوق۔ ماحول بہت بدل چکا ہے، بے حیائی عروج پر ہے، احساس محرومی کو بڑھانے میں ٹیلی وژن کے ڈرامے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے گھر، سرسراتے ریشمی پردے، مہنگا فرنیچر، مہنگی گاڑیاں، پہلے دوپٹے عورتوں اور لڑکیوں کے سروں سے اترے، پھر ایک شانے پر ٹک گئے اور اب بالکل غائب ہو گئے۔
پروڈیوسر اور ہدایت کار کی تنبیہ کہ ’’دوپٹہ نہیں چلے گا‘‘ ۔ اگر کسی نے دوپٹہ اتارنے سے منع کیا تو اسے ڈرامے ہی سے نکال دیا گیا۔ سب کچھ ایک پلاننگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اپنی اقدار اور تہذیب کا جنازہ یونیورسٹیاں بھی نکال رہی ہیں۔ پہلے یونیورسٹیوں میں سیاہ گاؤن لازمی ہوتا تھا، لیکن برساتی مینڈکوں کی طرح پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو فیشن گاہ بنا دیا گیا ہے۔ ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ اب طالبات کا پسندیدہ پہناوا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے۔
ان ماؤں پر جن کے سامنے ان کی بیٹیاں غیر مناسب کپڑوں میں باہر جانا پسند کرتی ہیں۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے، آہستہ آہستہ یہ زہر پوری سوسائٹی میں پھیل رہا ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں۔ یہی بات ایک دفعہ ایک سیاستدان نے کہی تھی کہ ’’اگر خواتین غیر مناسب لباس میں باہر نکلیں گی تو وارداتیں تو ہوں گی ہی۔‘‘ یہ بات نام نہاد اپر کلاس کو بہت بری لگی تھی، لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خواتین جب دعوت نظارہ دیں گی تو اس قسم کے واقعات ہونا لازمی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے کی بیٹی ماں باپ کے لیے کے بعد کسی کو
پڑھیں:
حضورۖ کا خراجِ تحسین
جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر
”جہینہ (قبیلے ) کی ایک عورت حضرت محمد ۖ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے ۔اور وہ حاملہ بھی تھی ،لہٰذا آپ نے اس عورت کو اس کے ولی کے سپرد کیا اور فرمایا:’اس سے حسن سلوک کرنا ۔جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا’ ۔جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے لے کر آیا۔۔۔۔۔(دیگر روایات میں ہے کہ جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا تو روٹی کھانے لگا)۔آپ نے اس کے رجم کا حکم دیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : آ پ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں جب کہ اس نے تو زنا کیاہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا :’اللہ کی قسم ! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر وہ مدینے والوں میں سے ستر اشخاص پر تقسیم کردی جائے تو ان سب کو پوری آجائے۔”
حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیاجاسکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کردیتی ہے ،اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (ترجمہ سنن نسائی حدیث ١٩٥٩)
خبر ہے کہ بانو کو پتا تھا کہ اب لوگ اسے لینے آرہے ہیں ، خبر ہے کہ بانو بھاگ سکتی تھی ؛ ان دونوں خبروں کی صداقت پر اگر شک سر اٹھائے تو اسے بانو کا ثابت قدمی سے آگے چل کر جانے پر شرم سے جھک جانا چاہیے ،اس کے ہاتھ میں قرآن تھا، یہ کہنا کہ بس گولی مارنے کی اجازت ہے ،اور آگے بڑھتے ہوئے منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرنا جیسے دعا کرنے کے بعد پھیرتے ہیں اورپھر ۔۔۔۔ گولی بلکہ گولیاں کھانے سے قبل وہ چند لمحے ۔۔۔
اس حدیث کے مطابق نفرت سے سزا دینا نہیں بنتا،عدالت عدل کرتی ہے اور سزاپر عمل درآمد کے تمام اخلاقی تقاضے پورے کرتی ہے ،ریاست انتقام نہیں لیتی انصاف کرتی ہے ،یہاں مارنے والے انصاف کرنے نہیں جارہے تھے ،وہ تو اپنی غیرت کا انتقام لے رہے تھے ، غصے کا اظہار کررہے تھے ،ایسا غصہ جس کو غم و غصہ نہیں کہاجاسکتا ، اے کاش کہ کہا جاسکتاکہ ہم سزا دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ہماراقانون ہے لیکن ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہمیں یہ کرنا پڑ رہاہے ،کاش تو ایسا نہ کرتی ، افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں تھا، یہاں ہر سننے دیکھنے والے کا دل خون کے آنسورویا اور وہ آنکھ جن سے ایک آنسوبھی نہ ٹپکا وہ شاید بانو کی ماں اور بھائی ہی کی تھیںکہ اس معاشرے میں مرد کا رونا بھی بزدلی کی علامت ہے اور وہ تو اپنی غیرت کا سر بلند کرکے لوٹے تھے۔ رونے کو بزدلی سمجھنے والے مردوں کو کوئی بتائے کہ حضور ۖ کس موقع پر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوئو ں سے ترگئی۔
مجھے اس دماغ ،ان ذہنی و نفسیاتی کیفیات ،اس کے پس ِ پردہ سماجی و تاریخی وجوہات کو سمجھنا تھا جو مرد کو ایسے عمل پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی بہن بیٹی بیوی کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے طاہرہ ایس خان کی دقیق تحقیقی کتاب ”عزت کے نام پر ”جسے ٢٠٠٦ء میں اختر حمید خان میموریل ایوارڈ دیاگیا،مترجم صبیح محسن ، ناشر اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، پڑھنا شروع کی اور ان سب سوالوں کے جوابات ملنا شروع ہوگئے ۔
مرد کو یہ سمجھنا ہے کہ عورت اس کی ملکیت نہیں ہے ، نہ ہی وہ اس کی عزت کی چوکیدار ہے اور نہ ہی خاند ان بھر کی عزت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے ۔وہ خبریں کہ جب پولیس گرفتاری کے لیے گئی تو وہاں کی عورتوں نے پولیس والوں کو پتھر مارے ، اس کا حوالہ بلوچستان کے وزیر ِ اعلیٰ نے بھی دیا اگرچہ کہ جہالت بھی کہا یعنی ان قبائلی رواج کا رکھوالا مرد ہی نہیں ہے کہ اسے ظالم سمجھا جائے بلکہ خود عورتیں بھی ان روایات کی امین ہیں، فہم جہاں مرد و زن میں تفریق کا مطالبہ کرے وہاںتفریق اور جہاں برابر کہے وہاں برابر،یعنی یہاں مردو زن برابر جاہل ثابت ہوتے ہیں۔
طاہرہ ایس خان کی کتاب سے چیدہ چیدہ جملے و اقتباسات ، صفحۂ اوّل :
‘۔۔۔ ایسے کچھ مصنفین کا وجود ہمیشہ انتہائی ضروری ہوتاہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے ،سچائی کو ڈھونڈ نکالنے اور اسے سامنے لانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہوں، اگرچہ انہیں کامیابی کی کچھ زیادہ امید بھی نہ ہو، انہیں یہ خوش فہمی بھی نہ ہوکہ وہ حالات کارخ فوری طور پر بدل دیں گے اور جب کوئی یقینی نتیجہ سامنے آتا ہوا نظرنہ آئے ،تو وہ نہ تو بددل ہوں اور نہ شکست تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔’ ٹی ایس ایلیٹ
١۔ ایک عرب اسکالر اور ماہر قانون ،لامہ ابوعودہ کا ایک تفصیلی اور بصیرت افروز مضمون Feminism and Islam: legal & Literary Perspective نامی کتاب میں شامل ہے ۔ اس مضمون جس کا عنوان ”Crimes of Honour and the Construction of Gender in Arab Societies”(٩٩٦ائ)ہے،۔۔۔ابوعودہ نے اپنے مطالعے میں ایک اور نکتہ اٹھایا کہ وفورِ جذبات کے تحت کیے جانے والے جرائم اور عزت کی خاطر جرائم میں واضح فرق کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ (ص ٩)
(وضاحت : اصطلاحاََعورت کا وہ قتل جو شوہر یا دوست کرے وفورِ جذبات کے تحت اور جو باپ ،بھائی یا بیٹا کرے وہ غیرت کے نام پر قتل کہاجائے گا )
٢۔ یہ سارا نظام یہ فرض کرلیتاہے کہ مرد کی عزت اس کی بہن ،بیٹی ، ماں یا بیوی کے جسم کے اندر پنہاں ہے۔۔۔۔ہلاکت کا شکار ہونے والیوں کی مائیںخود ان کے قتل میں شریک ہوجاتی ہیں،بہت سی مائیں اس خوف سے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو خود انہیں اور ان کی دوسری اولادوں کو بھی قتل کردیاجائے گا۔(ص١٩)
٣۔ تارک وطن مسلم برادریوں میں عزت کی خاطر تشدد میں اضافے کے پیش نظر سوئیڈن کی ایک تنظیم کوینوفوم (Kvinnofoum)نے ٢٠٠٣ء میں ایک پراجیکٹ شروع کیا ۔۔۔۔پراجیکٹ کے لیے یورپین کمیشن ،بلغاریہ، فن لینڈ، قبرص،برطانیہ اور نیدرلینڈ نے رقومات فراہم کیں۔یہ کثیر الریاستی پراجیکٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی عورتوں کے خلاف مسلمان مردوں کا رویہ ،اس کے باوجود کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں اس کے شہریوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیںاور اس کے بھی باوجود کہ اس مختلف کلچر میں کئی عشروں سے رہ رہے ہیں،نہ تو بدلا ہے اور نہ اس کی سختی میں کوئی کمی آئی ہے۔ (ص٢٥)
٤۔ ایک ترک عورت خاتون سروجو ٨ ِ مارچ ٢٠٠٥ء برلن میں قتل ہوگئی تھی ۔۔۔وہ جرمنی میں پلی بڑھی تھی مگر جب وہ ١٥ ِ برس کی ہوئی تو اسے ایک کزن سے شادی کے لیے ترکی واپس بھیج دیا گیا۔۔۔وہ دوسال بعد جرمنی واپس آئی ،اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اورپھر اس نے دوسرے مردوں سے میل جول بڑھانا شروع کردیا۔اسے مبینہ طور پر اس کے بھائیوں نے گولی مار کر ہلاک کیاتھا۔عورتوں کے حقوق کی ایک کارکن راحیل وولز کا ردعمل تھا”ایساپہلی دفعہ تو نہیں ہواتھا، لیکن سب سے بڑا دھچکا تو اس رد عمل سے لگا جس کا اظہار اسکول کے چند بچوں نے کیا ۔انہوں نے اپنے استادو ںسے کہا کہ وہ ان بھائیوں سے متفق تھے جنہوں نے (مبینہ طورپر) سروجو کو قتل کیاتھا۔(ص٢٥)
صد شکر کے اسی قبائلی نظام کے پروردہ بانو کے بیٹے نے اپنی ماں پر( بجا طور) پر فخر کیا ،اس نے تو شایدحضور ۖ کے دور کا وہ واقعہ بھی سنا یا پڑھانہیں ہوگا،جرگے کے سردار اپنے قبیلے کے ان ستر مردوں کا انتخاب کرلیں جن پر بانو کی توبہ تقسیم ہوگی،لیکن فیض تو واقف ہی ہوں گے اور نہیں ہوسکتا کہ یہ نظم لکھتے وقت ان کے ذہن میں حضور ۖ کے دور کی وہ عورت نہ ہو:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
#