آپ ماضی اور حال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دو فریق کے لیے مزید تباہی و بربادی کا سامان لے کر آتی ہیں۔ فریقین کو ہر صورت مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثالیں پاک بھارت اور اسرائیل ایران جنگیں ہیں۔ دونوں مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔
امریکی صدر متعدد بار اپنے اس کردار کا مختلف مواقعوں پر تذکرہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ورنہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور خوف ناک جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔ انھوں نے ایران کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تو جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور مردوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے روزانہ 80/70 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سفاکی، بربریت اور شقی القلبی کا عالم یہ ہے کہ اس نے پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ گھر، بازار، مکان، اسپتال اور اسکول غرض غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے۔ ہر عمارت بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ نیتن یاہو امدادی کاموں میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔
غذا کے حصول کے لیے برتن لیے قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ اسرائیلی وحشت کا رقص رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے محدود پیمانے پر امدادی سامان کے لیے راہداری دے دی ہے اور چند گھنٹوں کی رسمی طور پر بمباری روکنے کا بھی عندیا دیا ہے، لیکن غزہ کی صورت حال انتہائی نازک اور سنگین ہو چکی ہے تمام عالمی اداروں کی رپورٹیں غزہ کی بگڑتی ہوئی حالت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کے ذمے دار ادارے متعدد بار وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر امدادی سامان کو بروقت مظلوم فلسطینیوں تک نہ پہنچایا گیا تو غزہ میں غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے پرامید ضرور ہیں لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ جب کہ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ پر کسی صورت مکمل اپنا کنٹرول حاصل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے زائد تعداد زخمیوں کی ہے جو بمباری سے تباہ ہونے والے اسپتالوں کے باعث علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حد درجہ دکھ اور المیہ یہ ہے کہ تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں، چار و ناچار اجتماعی قبروں میں شہدا کو دفن کیا جا رہا ہے، لیکن قیام امن اور دنیا میں انسانی حقوق کے ذمے دار ملکوں اور اداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام ہیں۔
محض زبانی کلامی باتیں کی جا رہی ہیں اور نام نہاد ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں صورت حال کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ فرانس نے بجا طور پر یہودی آبادکاروں کے تشدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن انتہائی حیرت و افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی گہرے مراقبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عرب دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ 80 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے، قحط کا رقص مرگ جاری ہے اور مسلم امہ پر خاموشی طاری ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں عالم اسلام کے کردار پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ پوری دنیا میں تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، مسلمانوں کی باقاعدہ ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ گزشتہ تقریباً پونے دو سال سے اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
کوئی عمارت، اسکول، اسپتال، بازار اور پناہ گاہ سلامت نہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت اور اس کے سفاکانہ مظالم کے خلاف غیر مسلم عوام مظاہرے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم نے اپنے طور پر کیا اقدامات اٹھائے؟ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک اگر متحد ہو کر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے بغل بچہ اور کٹھ پتلی اسرائیل کو بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم سے باز رہے تو یقینا ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی قیادت اپنے اپنے مفادات کے زیر اثراسرائیل کے خلاف بھرپور اور موثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔
گزشتہ پونے دو سال میں او آئی سی کا ایک بھی سربراہ اجلاس نہیں بلایا گیا کہ جس کے نتیجے میں کوئی جامع عملی اقدامات اٹھائے جاتے اور فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات کی کوئی راہ نکلتی۔او آئی سی محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کوئی ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے مسلم امہ کی بے حسی فلسطینیوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے، وہاں صہیونی بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ چار سُو موت رقصاں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو یہ ہے کہ کے خلاف چکے ہیں بے گناہ رہے ہیں کے لیے رہا ہے دیا ہے اور اس
پڑھیں:
ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
یہودیوں کی پوری تاریخ ظلم و جبر، عیاری مکاری، خود غرضی اور احسان فراموشی سے بھری ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بے حد احسانات کیے اور انعام و اکرام کی بارش کی مگر انھوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کیا کہ یہ کبھی راہ راست پر آنے والے نہیں ہیں۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے باوجود بھی نافرمان رہے۔
آج کی دنیا میں بھی یہ بدنام ہیں اور کوئی انھیں عزت نہیں دیتا، یہ جس ملک میں بھی رہے اس کی جڑیں کاٹتے رہے۔ یہی کھیل انھوں نے جرمنی میں بھی کھیلا۔
یہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران مغربی ممالک کے مخبر بن گئے اور پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا سبب بنے۔
انھوں نے جرمنی کے ساتھ بھی غداری کی اور جرمنی کو ہرانے کے لیے مغربی ممالک کی خفیہ طرف داری ہی نہیں کی بلکہ جرمنی کی خفیہ معلومات ان تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ہٹلر کو ان کے اس گھناؤنے کردار نے آگ بگولہ کر دیا اور پھر اس نے ان کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ہٹلر نے انھیں جو سزا دی وہ یقینا بہت سخت تھی مگر ان کا جرم بھی تو ایسا سخت تھا جو اس سانحہ کا باعث بنا۔ اس سانحے کو آج ’’ ہولوکاسٹ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد مغربی ممالک نے جرمنی سے غداری اور مغربی ممالک سے وفاداری کرنے کے صلے میں انعام کے طور پر اس بے وطن قوم کو مشرق وسطیٰ میں بسا دیا۔
یہ فلسطینیوں کی سرزمین تھی مگر اسے ان کا وطن قرار دے دیا گیا جو آج اسرائیل کہلاتا ہے۔ اس ظالم قوم کو ایک وطن تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ تو پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے کیونکہ نمک حرامی اور احسان فراموشی ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔
گوکہ یہ عربوں کی سرزمین ہے اور مغربی ممالک کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ انھیں یہاں آباد کرتے۔ دراصل پہلی جنگ عظیم میں انھوں نے اسے ترکوں سے چھین لیا تھا لہٰذا انھوں نے اپنی مرضی سے جو کرنا چاہا وہ کیا۔
بہرحال انھوں نے اسرائیل کو قائم کرکے عربوں کے قلب میں خنجر پیوست کر دیا اور انھیں اسرائیل کے ذریعے اپنے کنٹرول میں رکھنے کا بندوبست کر لیا اور ان کی یہ حکمت عملی آج بھی کامیابی سے جاری ہے۔
امریکا نے اسرائیل کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ تمام ہی عرب ممالک اس سے مرعوب ہیں۔ اسرائیل آئے دن عربوں کے خلاف کوئی نہ کوئی شرارت کرتا رہتا ہے مگر وہ اسے جواب دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ کہیں امریکا ان سے ناراض نہ ہو جائے۔
ابھی گزشتہ دنوں پورے دو سال تک غزہ اسرائیل خونی حملوں کی زد میں رہا جس میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو گئے مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کوئی مداخلت کرتا۔ اسرائیل 1967 میں اردن، شام اور مصر کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا اور بعد میں شام کے کئی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے۔
مسجد اقصیٰ جیسی مقدس مسجد بھی اس کے قبضے میں ہے۔ وہ ان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ اب وہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں کو ہڑپ کرکے فلسطینی ریاست کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔
گوکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امریکا بھی مثبت سگنل دے چکا ہے تمام عرب ممالک بھی اس پر متفق ہیں مگر اسرائیل اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
گوکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اب رک چکی ہے اور اب قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جا رہی ہے ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے مغربی کنارے کے ایک بڑے حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی قرارداد پاس کر لی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ میں سخت گیر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ نیتن یاہو اگرچہ ظاہری طور پر ان سخت گیر ممبران کے خلاف ہے مگر اندرونی طور پر وہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے، لگتا ہے اسی کے اشارے پر پہلے سخت گیر عناصر جنگ بندی کو ناکام بناتے رہے اور اب فلسطینی ریاست کا راستہ روکنے کے لیے غیر قانونی یہودی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔
ایسے میں ایک سخت گیر یہودی بزلل جو نیتن یاہو حکومت کا وزیر خزانہ ہے نے عربوں کے خلاف ایک سخت بیان دیا ہے۔ بزلل نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عرب کے ریگستانوں میں اونٹوں پر سواری کرتے رہیں اور ہم سماجی و معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے رہیں گے۔
یہ واقعی ایک سخت بیان ہے جس سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہودی ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہیں جب کہ عرب پہلے بھی ریگستانوں میں اونٹوں پر گھومتے پھرتے تھے اور اب بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔
اس بیان پر سعودی عرب ہی نہیں تمام عرب ممالک نے سخت تنقید کی ہے۔ خود اسرائیل میں بھی بزلل کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیتن یاہو نے بھی اپنے وزیر کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے چنانچہ بزلل کو سعودی عرب سے معافی مانگنا پڑی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں اس وقت بھارت کی طرح عاقبت نااندیش سخت گیر جنونیوں کی حکومت قائم ہے جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور اسی مناسبت سے اس وقت اسرائیل کے بھارت سے گہرے روابط قائم ہیں۔
بدقسمتی سے اس وقت اسرائیل بھارت کی طرح جنونی قاتلوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ جنونی یہودی سعودی عرب کیا کسی مسلم ملک کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ جب کہ مسلمانوں کو غیر مہذب اور پسماندہ خیال کر رہے ہیں مگر انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی ساری طاقت اور ترقی امریکا اور مغربی ممالک کی مرہون منت ہے۔
آج وہ جس ملک کے مالک ہیں کیا وہ انھوں نے خود حاصل کیا ہے؟ یہ انھیں مغربی ممالک نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا، ان کی جرمنی سے غداری کے صلے میں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آج بھی امریکا کے غلام ہیں وہ کسی وقت بھی ان سے یہ زمین چھین سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کی معیشت اور جدید اسلحہ امریکا کا دیا ہوا ہے، اگر وہ ہاتھ کھینچ لے یا اسرائیل کی حفاظت نہ کرے تو یہ ملک کسی وقت بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے، چنانچہ اسرائیلی وزیر مسٹر بزلل کو ہرگز اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسرائیلی ایک آزاد قوم ہیں اور اسرائیل ایک آزاد خود مختار ملک ہے۔