جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر
”جہینہ (قبیلے ) کی ایک عورت حضرت محمد ۖ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے ۔اور وہ حاملہ بھی تھی ،لہٰذا آپ نے اس عورت کو اس کے ولی کے سپرد کیا اور فرمایا:’اس سے حسن سلوک کرنا ۔جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا’ ۔جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے لے کر آیا۔۔۔۔۔(دیگر روایات میں ہے کہ جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا تو روٹی کھانے لگا)۔آپ نے اس کے رجم کا حکم دیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : آ پ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں جب کہ اس نے تو زنا کیاہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا :’اللہ کی قسم ! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر وہ مدینے والوں میں سے ستر اشخاص پر تقسیم کردی جائے تو ان سب کو پوری آجائے۔”
حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیاجاسکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کردیتی ہے ،اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (ترجمہ سنن نسائی حدیث ١٩٥٩)
خبر ہے کہ بانو کو پتا تھا کہ اب لوگ اسے لینے آرہے ہیں ، خبر ہے کہ بانو بھاگ سکتی تھی ؛ ان دونوں خبروں کی صداقت پر اگر شک سر اٹھائے تو اسے بانو کا ثابت قدمی سے آگے چل کر جانے پر شرم سے جھک جانا چاہیے ،اس کے ہاتھ میں قرآن تھا، یہ کہنا کہ بس گولی مارنے کی اجازت ہے ،اور آگے بڑھتے ہوئے منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرنا جیسے دعا کرنے کے بعد پھیرتے ہیں اورپھر ۔۔۔۔ گولی بلکہ گولیاں کھانے سے قبل وہ چند لمحے ۔۔۔
اس حدیث کے مطابق نفرت سے سزا دینا نہیں بنتا،عدالت عدل کرتی ہے اور سزاپر عمل درآمد کے تمام اخلاقی تقاضے پورے کرتی ہے ،ریاست انتقام نہیں لیتی انصاف کرتی ہے ،یہاں مارنے والے انصاف کرنے نہیں جارہے تھے ،وہ تو اپنی غیرت کا انتقام لے رہے تھے ، غصے کا اظہار کررہے تھے ،ایسا غصہ جس کو غم و غصہ نہیں کہاجاسکتا ، اے کاش کہ کہا جاسکتاکہ ہم سزا دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ہماراقانون ہے لیکن ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہمیں یہ کرنا پڑ رہاہے ،کاش تو ایسا نہ کرتی ، افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں تھا، یہاں ہر سننے دیکھنے والے کا دل خون کے آنسورویا اور وہ آنکھ جن سے ایک آنسوبھی نہ ٹپکا وہ شاید بانو کی ماں اور بھائی ہی کی تھیںکہ اس معاشرے میں مرد کا رونا بھی بزدلی کی علامت ہے اور وہ تو اپنی غیرت کا سر بلند کرکے لوٹے تھے۔ رونے کو بزدلی سمجھنے والے مردوں کو کوئی بتائے کہ حضور ۖ کس موقع پر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوئو ں سے ترگئی۔
مجھے اس دماغ ،ان ذہنی و نفسیاتی کیفیات ،اس کے پس ِ پردہ سماجی و تاریخی وجوہات کو سمجھنا تھا جو مرد کو ایسے عمل پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی بہن بیٹی بیوی کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے طاہرہ ایس خان کی دقیق تحقیقی کتاب ”عزت کے نام پر ”جسے ٢٠٠٦ء میں اختر حمید خان میموریل ایوارڈ دیاگیا،مترجم صبیح محسن ، ناشر اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، پڑھنا شروع کی اور ان سب سوالوں کے جوابات ملنا شروع ہوگئے ۔
مرد کو یہ سمجھنا ہے کہ عورت اس کی ملکیت نہیں ہے ، نہ ہی وہ اس کی عزت کی چوکیدار ہے اور نہ ہی خاند ان بھر کی عزت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے ۔وہ خبریں کہ جب پولیس گرفتاری کے لیے گئی تو وہاں کی عورتوں نے پولیس والوں کو پتھر مارے ، اس کا حوالہ بلوچستان کے وزیر ِ اعلیٰ نے بھی دیا اگرچہ کہ جہالت بھی کہا یعنی ان قبائلی رواج کا رکھوالا مرد ہی نہیں ہے کہ اسے ظالم سمجھا جائے بلکہ خود عورتیں بھی ان روایات کی امین ہیں، فہم جہاں مرد و زن میں تفریق کا مطالبہ کرے وہاںتفریق اور جہاں برابر کہے وہاں برابر،یعنی یہاں مردو زن برابر جاہل ثابت ہوتے ہیں۔
طاہرہ ایس خان کی کتاب سے چیدہ چیدہ جملے و اقتباسات ، صفحۂ اوّل :
‘۔۔۔ ایسے کچھ مصنفین کا وجود ہمیشہ انتہائی ضروری ہوتاہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے ،سچائی کو ڈھونڈ نکالنے اور اسے سامنے لانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہوں، اگرچہ انہیں کامیابی کی کچھ زیادہ امید بھی نہ ہو، انہیں یہ خوش فہمی بھی نہ ہوکہ وہ حالات کارخ فوری طور پر بدل دیں گے اور جب کوئی یقینی نتیجہ سامنے آتا ہوا نظرنہ آئے ،تو وہ نہ تو بددل ہوں اور نہ شکست تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔’ ٹی ایس ایلیٹ
١۔ ایک عرب اسکالر اور ماہر قانون ،لامہ ابوعودہ کا ایک تفصیلی اور بصیرت افروز مضمون Feminism and Islam: legal & Literary Perspective نامی کتاب میں شامل ہے ۔ اس مضمون جس کا عنوان ”Crimes of Honour and the Construction of Gender in Arab Societies”(٩٩٦ائ)ہے،۔۔۔ابوعودہ نے اپنے مطالعے میں ایک اور نکتہ اٹھایا کہ وفورِ جذبات کے تحت کیے جانے والے جرائم اور عزت کی خاطر جرائم میں واضح فرق کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ (ص ٩)
(وضاحت : اصطلاحاََعورت کا وہ قتل جو شوہر یا دوست کرے وفورِ جذبات کے تحت اور جو باپ ،بھائی یا بیٹا کرے وہ غیرت کے نام پر قتل کہاجائے گا )
٢۔ یہ سارا نظام یہ فرض کرلیتاہے کہ مرد کی عزت اس کی بہن ،بیٹی ، ماں یا بیوی کے جسم کے اندر پنہاں ہے۔۔۔۔ہلاکت کا شکار ہونے والیوں کی مائیںخود ان کے قتل میں شریک ہوجاتی ہیں،بہت سی مائیں اس خوف سے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو خود انہیں اور ان کی دوسری اولادوں کو بھی قتل کردیاجائے گا۔(ص١٩)
٣۔ تارک وطن مسلم برادریوں میں عزت کی خاطر تشدد میں اضافے کے پیش نظر سوئیڈن کی ایک تنظیم کوینوفوم (Kvinnofoum)نے ٢٠٠٣ء میں ایک پراجیکٹ شروع کیا ۔۔۔۔پراجیکٹ کے لیے یورپین کمیشن ،بلغاریہ، فن لینڈ، قبرص،برطانیہ اور نیدرلینڈ نے رقومات فراہم کیں۔یہ کثیر الریاستی پراجیکٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی عورتوں کے خلاف مسلمان مردوں کا رویہ ،اس کے باوجود کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں اس کے شہریوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیںاور اس کے بھی باوجود کہ اس مختلف کلچر میں کئی عشروں سے رہ رہے ہیں،نہ تو بدلا ہے اور نہ اس کی سختی میں کوئی کمی آئی ہے۔ (ص٢٥)
٤۔ ایک ترک عورت خاتون سروجو ٨ ِ مارچ ٢٠٠٥ء برلن میں قتل ہوگئی تھی ۔۔۔وہ جرمنی میں پلی بڑھی تھی مگر جب وہ ١٥ ِ برس کی ہوئی تو اسے ایک کزن سے شادی کے لیے ترکی واپس بھیج دیا گیا۔۔۔وہ دوسال بعد جرمنی واپس آئی ،اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اورپھر اس نے دوسرے مردوں سے میل جول بڑھانا شروع کردیا۔اسے مبینہ طور پر اس کے بھائیوں نے گولی مار کر ہلاک کیاتھا۔عورتوں کے حقوق کی ایک کارکن راحیل وولز کا ردعمل تھا”ایساپہلی دفعہ تو نہیں ہواتھا، لیکن سب سے بڑا دھچکا تو اس رد عمل سے لگا جس کا اظہار اسکول کے چند بچوں نے کیا ۔انہوں نے اپنے استادو ںسے کہا کہ وہ ان بھائیوں سے متفق تھے جنہوں نے (مبینہ طورپر) سروجو کو قتل کیاتھا۔(ص٢٥)
صد شکر کے اسی قبائلی نظام کے پروردہ بانو کے بیٹے نے اپنی ماں پر( بجا طور) پر فخر کیا ،اس نے تو شایدحضور ۖ کے دور کا وہ واقعہ بھی سنا یا پڑھانہیں ہوگا،جرگے کے سردار اپنے قبیلے کے ان ستر مردوں کا انتخاب کرلیں جن پر بانو کی توبہ تقسیم ہوگی،لیکن فیض تو واقف ہی ہوں گے اور نہیں ہوسکتا کہ یہ نظم لکھتے وقت ان کے ذہن میں حضور ۖ کے دور کی وہ عورت نہ ہو:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
#
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: رہے ہیں ہے اور کے لیے اور نہ
پڑھیں:
غزہ: رقصِ مرگ
آپ ماضی اور حال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دو فریق کے لیے مزید تباہی و بربادی کا سامان لے کر آتی ہیں۔ فریقین کو ہر صورت مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثالیں پاک بھارت اور اسرائیل ایران جنگیں ہیں۔ دونوں مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔
امریکی صدر متعدد بار اپنے اس کردار کا مختلف مواقعوں پر تذکرہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ورنہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور خوف ناک جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔ انھوں نے ایران کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تو جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور مردوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے روزانہ 80/70 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سفاکی، بربریت اور شقی القلبی کا عالم یہ ہے کہ اس نے پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ گھر، بازار، مکان، اسپتال اور اسکول غرض غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے۔ ہر عمارت بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ نیتن یاہو امدادی کاموں میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔
غذا کے حصول کے لیے برتن لیے قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ اسرائیلی وحشت کا رقص رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے محدود پیمانے پر امدادی سامان کے لیے راہداری دے دی ہے اور چند گھنٹوں کی رسمی طور پر بمباری روکنے کا بھی عندیا دیا ہے، لیکن غزہ کی صورت حال انتہائی نازک اور سنگین ہو چکی ہے تمام عالمی اداروں کی رپورٹیں غزہ کی بگڑتی ہوئی حالت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کے ذمے دار ادارے متعدد بار وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر امدادی سامان کو بروقت مظلوم فلسطینیوں تک نہ پہنچایا گیا تو غزہ میں غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے پرامید ضرور ہیں لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ جب کہ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ پر کسی صورت مکمل اپنا کنٹرول حاصل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے زائد تعداد زخمیوں کی ہے جو بمباری سے تباہ ہونے والے اسپتالوں کے باعث علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حد درجہ دکھ اور المیہ یہ ہے کہ تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں، چار و ناچار اجتماعی قبروں میں شہدا کو دفن کیا جا رہا ہے، لیکن قیام امن اور دنیا میں انسانی حقوق کے ذمے دار ملکوں اور اداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام ہیں۔
محض زبانی کلامی باتیں کی جا رہی ہیں اور نام نہاد ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں صورت حال کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ فرانس نے بجا طور پر یہودی آبادکاروں کے تشدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن انتہائی حیرت و افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی گہرے مراقبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عرب دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ 80 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے، قحط کا رقص مرگ جاری ہے اور مسلم امہ پر خاموشی طاری ہے۔
حماس اسرائیل جنگ میں عالم اسلام کے کردار پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ پوری دنیا میں تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، مسلمانوں کی باقاعدہ ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ گزشتہ تقریباً پونے دو سال سے اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
کوئی عمارت، اسکول، اسپتال، بازار اور پناہ گاہ سلامت نہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت اور اس کے سفاکانہ مظالم کے خلاف غیر مسلم عوام مظاہرے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم نے اپنے طور پر کیا اقدامات اٹھائے؟ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک اگر متحد ہو کر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے بغل بچہ اور کٹھ پتلی اسرائیل کو بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم سے باز رہے تو یقینا ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی قیادت اپنے اپنے مفادات کے زیر اثراسرائیل کے خلاف بھرپور اور موثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔
گزشتہ پونے دو سال میں او آئی سی کا ایک بھی سربراہ اجلاس نہیں بلایا گیا کہ جس کے نتیجے میں کوئی جامع عملی اقدامات اٹھائے جاتے اور فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات کی کوئی راہ نکلتی۔او آئی سی محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کوئی ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے مسلم امہ کی بے حسی فلسطینیوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے، وہاں صہیونی بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ چار سُو موت رقصاں ہے۔