سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔

 سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی۔

یہ بھی پڑھیے سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت پر سماعت ملتوی

آج دوران سماعت اسپیشل پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری نے لوگوں کو اکسایا اور سازش کا بھی حصہ رہے۔

اس پر جسٹس نعیم اختر افغان  نے ریمارکس دیے کہ سینیٹر اعجاز چوہدری کیخلاف کیس اتنا ہی مضبوط تھا تو فوجی عدالت میں لے جاتے، ویسے بھی تو 600 سو لوگ فوجی عدالتوں میں لے کر گئے ہی ہیں۔ معزز جج نے قرار دیا کہ ضمانت کو بطور سزا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

بعدازاں عدالت نے سینیٹر اعجاز چوہدری  کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سینیٹر اعجاز چوہدری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سینیٹر اعجاز چوہدری سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت سپریم کورٹ

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ

ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے جج، متعلقہ چیف جسٹس صاحبان یا چیف جسٹس پاکستان میں سے کوئی انکار کردے تو ٹرانسفر کا عمل ختم ہوجاتا ہے، صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا عدالتی فیصلے موجود ہیں سنیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی اور کہا ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27 اے کا نوٹس ہوا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے، کیا آپ کو نہیں پتہ 27 اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟ جب لاہور ہائیکورٹ رجسٹرار نے اپنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ تو اس کیس میں مرکزی فریق ہیں۔

وکیل نے کہا آرٹیکل 48(1) میں وزیراعظم کی ایڈوائس کابینہ سے مشروط ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا آپ آرٹیکل 48 کو غلط انداز سے دیکھ رہے ہیں، صدر کے اختیارات اور امور کی انجام دہی میں فرق ہے۔

وکیل نے کہا دیکھنا ہے کہ کیا صدر کو وزیراعظم کی ایڈوانس پر عمل کرنا ہے، قاضی فائز عیسی کیس میں کہا کیا گیا کہ صدر کو اپنا مائینڈ اپلائی کرنا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کو برطرف کرنے کی سفارش کردے تو کیا صدر اپنا ذہن اپلائی کرے گا؟ جوڈیشل کمیشن کسی کو جج نامزد کرے تو کیا صدر تقرری سے انکار کرسکتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جج کی تبادلے کے عمل میں رضامندی نہ ہو تو سارا عمل وہیں ختم ہوجائے گا، جج رضامندی دے بھی دے اس ہائیکورٹ کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، جس ہائیکورٹ میں جانا ہے وہاں کا چیف جسٹس انکار کردے تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان تبادلہ پر انکار کردے تب بھی جج کا تبادلہ نہیں ہوسکے گا، جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایسا نہیں کرسکتے جس سے یہ کہنا شروع ہوجائیں کہ آئین میں سپریم کورٹ نے ترمیم کر ڈالی۔

آئین میں وزیراعظم یا کابینہ کے الفاظ تو 1985 سے شامل ہیں، ایسی مثال بھی ہے جہاں سپریم کورٹ نے ایک آرمی چیف کی توسیع کیس میں پارلیمنٹ کو چھ ماہ کیلئے قانون سازی کا وقت دیا۔

متعلقہ مضامین

  • فیض حمید کا کورٹ مارشل بھی ہوگا اور عمر قید بھی ہوگی، سینیٹر فیصل واوڈا
  • شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی، ملک بھر میں دعائیہ تقاریب
  • 26 نومبر احتجاج کیس میں اسٹیٹ کونسل مقرر کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل منظور
  • 9 مئی کیس، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی ضمانت منظور
  • سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن نے بجٹ کو امیر پرور اور غریب کش قرار دیدیا
  • 9 مئی کیس: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی ضمانت منظور
  • امریکا، ایران اسرائیل جنگ میں شامل ہوسکتا ہے، ٹرمپ نے عندیہ دیدیا
  • ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • پرتشدد ریلی کیس: عالیہ حمزہ، انتظار پنجوتھہ اور فلک ناز بلوچ کی ضمانت منظور