منشیات برآمدگی کیس، سندھ ہائیکورٹ کی اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کی ضمانت منظور، رہاکرنے کاحکم
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 مئی 2025)سندھ ہائیکورٹ نے منشیات برآمد گی کیس میں اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کی ضمانت منظورکرلی، عدالت کا ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم، سندھ ہائیکورٹ آئینی بینچ میں منشیات برآمدگی کیس میں گرفتار ملزم ساحر کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل منتظر مہدی سمیت دیگر متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
ملزم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ساحر کو گرفتار ہوئے 2 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ تاحال جیل میں قید ہے۔وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہے اور ملزم سے 5 سو 57 گرام ویڈ گانجا برآمد ہوا تھا، ملزم کی درخواست ضمانت پر سندھ ہائیکورٹ نے حکومت کو ہدایات کی۔(جاری ہے)
بعدازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کی رہائی کا حکم دے دیا تاہم ضمانت کی شرط کے طور پر 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے منشیات کیس میں گرفتار ملزم ساحر کی درخواست ضمانت کو آئینی بینچ کا دائرہ سماعت قرار دیاتھا۔عدالت نے ملزم ساحر کی درخواست ضمانت 24اپریل کو سماعت کیلئے مقرر کردی تھی۔سندھ ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے منشیات کیس میں گرفتار ملزم ساحر کی درخواست ضمانت کی سماعت کی تھی۔عدالت نے قرار دیا تھاکہ ملزم ساحر کی درخواست ضمانت آئینی بینچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔عدالت کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق سے متعلق معاملات آئینی بینچ میں سنے جاسکتے ہیں۔ ملزم کی درخواست ضمانت آئین کے آرٹیکل 199 سب سیکشن (l) (سی) میں آتی ہے۔ ویڈ برآمدگی کیس میں اداکار ساجد حسن کے بیٹے ملزم ساحر حسن سے ملنے والا موبائل فون فرانزک کیلئے بھجوا دیا گیا تھا۔ ملزم ساحر حسن کے دیگر ساتھیوں کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا تھا کہ موبائل فون کی فرانزک کے بعد مزید نام بھی سامنے آ سکتے تھے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق ملزم بازل کی ٹریول ہسٹری بھی ایف آئی اے سے مانگی جائے گی۔ ملزم کے ساتھی ملک کے دیگر شہروں سے منشیات کانیٹ ورک آپریٹ کر رہے تھے۔ ملزم ساحر حسن کے ساتھی بازل ودیگر کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملزم ساحر کی درخواست ضمانت سندھ ہائیکورٹ کیس میں حسن کے
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔