2025 انٹرنیشنل کنزیومر سیزن اور چھٹے شنگھائی “55 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
2025 انٹرنیشنل کنزیومر سیزن اور چھٹے شنگھائی “55 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کر دیا گیا
بیجنگ :چین کی وزارت تجارت، چائنا میڈیا گروپ، اور شنگھائی کی حکومت کے مشترکہ زیر اہتمام 2025 انٹرنیشنل کنزیومر سیزن اور چھٹے شنگھائی “5 5 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کر دیا گیا۔سی پی سی کی شنگھائی کمیٹی کے ڈپٹی سیکریٹری اور میئر گونگ ژنگ، نائب وزیر تجارت شنگ چھیو پھنگ اور سی ایم جی کے ڈپٹی ڈائریکٹر وانگ شیاؤچین نے مشترکہ طور پر 2025 کے بین الاقوامی کھپت سیزن اور چھٹے شنگھائی “55 شاپنگ فیسٹیول” کا آغاز کیا۔ تقریب میں چوتھا انٹرنیشنل کنزیومر سینٹر سٹی فورم بھی منعقد کیا گیا۔نائب وزیر تجارت شنگ چھیو پھنگ نے کہا کہ یہ سال انٹرنیشنل کنزیومر سینٹر سٹی کی تعمیر کا پانچواں سال ہے ، اور اس حوالے سے مختلف عوامل میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ 2024 میں ، شنگھائی ، بیجنگ ، گوانگ چو ، تھیان جن ، اور چھونگ چھینگ میں صارفین کے سامان کی کل خوردہ فروخت ملک کا تقریباً آٹھواں حصہ تھی ، اور صارفین کے سامان کی درآمدی قیمت ملک کا نصف سے زیادہ تھی ، اور ٹیکس ریفنڈ فروخت میں پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً ایک گنا اضافہ ہوا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اجناس کی کھپت کو اپ گریڈ کرنے، خدمات کی کھپت میں توسیع کو فروغ دینے، متنوع کھپت کے منظرنامے میں جدت لانے، غیر ملکی تجارت ، غیر ملکی سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے اور کھپت کو بڑھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا اور معیشت کی پائیدار بحالی کو فروغ دینا ضروری ہے۔تقریب میں سی ایم جی کے ” سی ایم جی کی مصنوعات پر مبنی شنگھائی پویلین” کا بھی اجراء کیا گیا۔ “55 شاپنگ فیسٹیول” کے دوران ، سی ایم جی گڈز پر لائیو نشریاتی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ بھی جاری رہے گا۔2025 کا بین الاقوامی کھپت سیزن وزارت تجارت سمیت چھ محکموں کی طرف سے “چین میں خریدیں” کی سرگرمیوں کے سلسلے میں سے ایک ہے، جو ملک چھوڑنے پر ٹیکس ریفنڈ پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئےگھریلو رہائشیوں اور چین میں آنے والے سیاحوں کو دنیا بھر سے اچھی اشیاء خریدنے اور اعلی معیار کی خدمات سے لطف اندوز کرنے میں مدد کرے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کنزیومر شاپنگ فیسٹیول سی ایم جی کا ا غاز
پڑھیں:
بھارت کی ایران کے ساتھ غداری، منافقانہ بیان آگیا، اسرائیل کا دفاع
تہران / نئی دہلی (نیوز ڈیسک) ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی سطح پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، تاہم بھارت نے ایک بار پھر اپنی دوغلی خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجتماعی مؤقف سے اختلاف کیا اور ایران کی حمایت سے انکار کر دیا۔
بھارت جو ہمیشہ تہذیبی اقدار، امن، انسانیت اور خودمختاری کا راگ الاپتا ہے، ایران پر حملے کے موقع پر اپنی خاموشی سے ظاہر کر چکا ہے کہ اس کے اصول صرف دعووں کی حد تک ہیں، عملی طور پر وہ موقع پرستی اور مفادات کی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک نے اسرائیلی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ تنظیم کے مشترکہ اعلامیے میں ایران کی خودمختاری پر حملے کو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرہ اور شہری انفراسٹرکچر و عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام تنازعات کا حل سیاسی اور سفارتی ذرائع سے تلاش کیا جانا چاہیے، اور کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی قابلِ قبول نہیں۔
ان واضح نکات کے باوجود بھارت نے نہ صرف مشترکہ اعلامیے سے علیحدگی اختیار کی بلکہ ایک علیحدہ اور مبہم بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کا نام تک شامل نہیں تھا۔ یہ طرزِ عمل SCO کی یکجہتی کو توڑنے کے مترادف ہے اور بھارت کی منافقت کو واضح کرتا ہے کہ وہ اصولوں کے ساتھ نہیں بلکہ ذاتی و اسلحہ مفادات کے ساتھ کھڑا ہے۔
ایران کے خلاف کارروائی پر خاموش رہ کر بھارت نے اپنے اس دعوے کو بھی جھٹلایا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی خودمختار اور اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہے۔ درحقیقت، بھارت نے SCO جیسے علاقائی اتحاد کی متحدہ آواز کو مسترد کیا، اسرائیلی جارحیت کا غیراعلانیہ دفاع کیا اور تہذیبی و اخلاقی دعوؤں کو منافع اور مصلحت کی سیاست پر قربان کر دیا۔
اگر بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی اصولوں سے اتفاق نہیں کرتا تو اسے اس فورم کا حصہ بننے کا کوئی اخلاقی یا اصولی جواز حاصل نہیں۔ جو ملک اجتماعی مؤقف، عالمی امن اور ریاستی خودمختاری کا احترام نہ کرے، وہ کسی علاقائی یا بین الاقوامی اتحاد میں اعتماد کے ساتھ شامل نہیں رہ سکتا۔
بھارت کا موجودہ رویہ اس کے دوغلے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے، جو انسانیت کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے، مگر عمل میں صرف مفادات کا پیروکار ہے۔ ایران میں بھارتی جاسوسوں کی گرفتاری اور شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی حمایت سے انکار — یہ دونوں واقعات بھارتی پالیسی کی اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔
مزیدپڑھیں:ایران نے امریکہ کے خلاف بڑااقدام اٹھالیا