’شہبازشریف سٹائلش تصویریں لگاتے ہیں‘ بھارت میں وزیراعظم کا انسٹا اکاؤنٹ بند ہونے پر وزیراطلاعات کا تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 مئی 2025ء ) بھارت میں وزیراعظم شہباز شریف کا انسٹا گرام اکاؤنٹ بند ہونے پر وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ کا تبصرہ سامنے آگیا۔ اس حوالے سے سنو نیوز کے ایک پروگرام مین بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا انسٹاگرام اس لیے بند کیا گیا ہے کہ وہ بہت اچھی ڈریسنگ کرتے ہیں اور انہیں اپنی ڈریسنگ کی فکر بھی ہوتی ہے، وہ انسٹا پر سٹائلش تصویریں لگاتے ہیں جو انڈیا والوں سے برداشت نہیں ہو سکیں اس لیے انہوں نے شہباز شریف کا انسٹا گرام کا اکاؤنٹ بند کر دیا ہے۔
عطا اللہ تارڑ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کو کاکول کی تقریر ہضم نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وزیر اعظم کا یوٹیوب چینل بھی بند کردیا کیوں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سچے سٹیٹس مین کی طرح بات کی اور انہیں منہ توڑ جواب دیا جس کی وجہ سے بھارتیوں کو وزیراعظم سے تکلیف ہے۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ کاکول اکیڈمی سے خطاب کے بعد بھارت نے وزیراعظم شہباز شریف کے یوٹیوب چینل پر پابندی عائد کردی، بھارتی شکایت پر وزیراعظم کی تقریر بھی یوٹیوب سے ہٹادی گئی، پہلگام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے متعدد پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے یوٹیوب چینل پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے، یو ٹیوب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر ہٹانے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے پاکستانی فنکاروں اور میڈیا پر ایک بار پھر پابندی عائد کرنے کا معاملہ خبروں کی زینت بنا ہوا ہے، یہ پابندی اس وقت لگائی گئی جب پہلگام کے علاقے میں بھارتی سیاحوں کے قتل کا الزام پاکستان پر لگایا گیا حالاں کہ بعد میں بھارتی فوج کے ایک جنرل نے اعتراف کیا کہ یہ واقعہ بھارت کا ایک ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘تھا جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا، تاہم پابندی کے فوری بعد بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی فلموں، ڈراموں اور دیگر میڈیا ریلیزز کو روک دیا گیا، جس میں فواد خان اور ہانیہ عامر کی آنے والی فلمیں بھی شامل تھیں تاہم اس اقدام پر پاکستانی شوبز انڈسٹری نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ زبردست ردِعمل دیا، مشہور اداکارہ مشی خان نے بھارتی پابندی پر نہ صرف تنقید کی بلکہ سوشل میڈیا پر بھارتی ڈراموں کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک مزاحیہ ویڈیو بھی شیئر کی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پابندی عائد شہباز شریف کا انسٹا
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
ریاض احمدچودھری
بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭