فلسطین پر خاموشی ناقابل معافی جرم ہے، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
لاہور میں تقریب سے خطاب میں تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا تھاکہ عرب حکمران فلسطین فراموشی اور فلسطین فروشی میں صیہونیوں کے محافظ بن چکے ہیں،زمینی حقیقت کیا ہے؟ وہ یہ کہ غزہ آج بھی جل رہا ہے۔ اقصیٰ آج بھی مقبوضہ ہے۔ فلسطینی بچے آج بھی کفن کے بغیر دفن ہوتے ہیں۔ دن رات غزہ میں بمباری جاری ہے۔ ہم خاموش ہیں۔ ہمارے ممبران اسمبلی نے فلسطین کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عصر حاضر میں میڈیا کی طاقت، سیاسی بیان بازی اور سوشل نیریٹیوز انسانی شعور کو کنٹرول کرنے کے بڑے ہتھیار بن چکے ہیں، انہی ہتھیاروں کے ذریعے ایک خطرناک، مگر منظم سازش مسلسل بروئے کار ہے، وہ ہے فلسطین فراموشی کی سازش، یہ سازش صرف اسرائیل یا امریکہ تک محدود نہیں بلکہ عرب حکمران بھی اس سازش کا حصہ اور صیہونی مفادات کے محافظ بن چکے ہیں۔ عرب سرمایہ، اربوں ڈالرز کے منصوبوں میں صرف ہو رہا ہے، مگر نہ غزہ کیلئے، نہ اقصیٰ کیلئے، نہ فلسطینی یتیموں اور بیواؤں کیلئے، بلکہ فلسطین کو تاریخ کے صفحے سے مٹانے کیلئے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ جب فلسطین فراموش ہو جائے گا، تو دوسرا مرحلہ شروع ہو گا فلسطین فروشی یعنی پہلے فراموش کرنا چاہتے ہیں پھر فروش۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی مفروضہ نہیں، بلکہ عملی حقیقت ہے۔ سب نے دیکھا کہ کیسے بعض عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے، کیسے فلسطینیوں کی پشت میں خنجر گھونپا گیا اور کیسے مسجد اقصیٰ کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ تمام کوششیں، یہ تمام گھناؤنے منصوبے، حماس، حزب اللہ، انصار اللہ اور ایران کے نظریاتی و مزاحمتی محور نے خاک میں ملا دیئے۔ انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ فلسطین کو بھلانا ممکن نہیں اور فلسطین کو بیچنا بھی ناممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کی آج بھی، جب جنگ بندی کا اعلان ہوتا ہے، تو درپردہ ایک اور یلغار شروع ہو جاتی ہے اور عین اسی لمحے میڈیا خاموش ہو جاتا ہے، سیاسی پنڈت نئے موضوعات کو اچھالتے ہیں، اور رائے عامہ کو غزہ سے ہٹا کر مصنوعی فکری معرکوں میں الجھا دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟ وہ یہ کہ غزہ آج بھی جل رہا ہے۔ اقصیٰ آج بھی مقبوضہ ہے۔ فلسطینی بچے آج بھی کفن کے بغیر دفن ہوتے ہیں۔ دن رات غزہ میں بمباری جاری ہے۔ ہم خاموش ہیں۔ ہمارے ممبران اسمبلی نے فلسطین کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فراموشی جرم ہے،غزہ کے زخموں کو نظر انداز کرنا جرم ہے، اقصیٰ کے در و دیوار سے آنکھیں چرانا جرم ہےاور یہ جرم اگر کسی عام فرد سے سرزد ہو تو ہو سکتا ہے کہ معاف ہو جائے، مگر اگر یہ جرم کسی عالمِ دین سے ہو، کسی حکمران سے ہو، کسی میڈیا پرسن، دانشور، پروفیسر، بیوروکریٹ یا سیاسی رہنما سے ہو تو یہ ایک ناقابلِ معافی خیانت بن جاتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے آج بھی جرم ہے
پڑھیں:
توہین مذہب کے نام پر کاروبار معاشرے کیلئے ناسور ہے، علامہ سبطین سبزواری
علماء کے وفود سے گفتگو میں مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان کا کہنا تھا کہ کسی کو توہین مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جسٹس اعجاز اسحاق خان کے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، کمشن کی تشکیل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرکے اسے بحال کیا جائے، توہین مذہب کے نام پر کاروبار ازخود بہت بڑی توہین ہے،ریاستی ادارے اور علماء کردار ادا کریں، عدالتی کمشن تمام مقدمات کا جائزہ لے کر انصاف کرے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے توہین مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی مذمت کرتے ہوئے اسے معاشرے کیلئے ناسور قرار دیا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق خان کے عدالتی کمیشن کی تشکیل کے فیصلے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کمشن کی تشکیل میں قانونی رکاوٹوں کو دور کرکے اسے بحال کیا جائے۔ لاہور میں علماء کے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توہین مذہب کو کاروبار بنا کر پیش کرنا از خود بہت بڑی توہین ہے۔ اس حوالے سے کئی واقعات پاکستان اور اسلام کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، لہٰذا قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے ریاست کو ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران جو حقائق سامنے آئے ہیں، انتہائی افسوسناک ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کیونکہ کسی کو مذہب کے نام پر گھناونے کاروبار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کو اس حوالے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اس ملک میں کتنے بے گناہوں کو چند جنونیوں کے نعرے لگانے، ذاتی تنازعات، کم فہمی اور ناقص معلومات کی وجہ سے قتل کیا گیا، جن میں کئی بیگناہ متقی لوگ بھی شامل تھے، اس حوالے سے ہمیں ایک ذمہ دار معاشرے کے طورپر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے کہ سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری فیکٹری منیجر کو قتل کیا گیا، کئی مسیحی بستیوں کو جلایا گیا اور پاکستانی خاندانوں کو برباد کیا گیا۔ اس لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا مذہبی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے، تاکہ مذہب کے نام پر پاکستان اور اسلام کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔ علامہ سبطین سبزواری کا کہنا تھا کہ عدالتی کمشن تمام مقدمات کا جائزہ لے، جن کیخلاف ٹھوس شہادتیں موجود ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور جن کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں انہیں سزا دینا اسلام کے نظام انصاف کی خلاف ورزی ہوگی۔