پانچ سال کا عرصہ بھی شاید نہیں ہوا ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان ایک بار پھرآمنے سامنے ہیں، جب کہ ہندوستان کے عوام اپنی داخلی سیاست کے اس بیانیہ سے سخت نالاں ہیں جو ہندوستان کی سیاست میں انتہا پرست سوچ کو مضبوط کر رہا ہے۔ یہ بیانیہ زور پکڑتا ہے جب خاص کر مودی صاحب اقتدار کی کرسی پر برا جمان ہوں۔
نریندر مودی تیسری بار وزیرِ اعظم بنے ہیں مگر اس دفعہ ان کی کامیابی دو تہائی اکثریت سے نہیں ہوئی بلکہ دیکھا جائے تو وہ جیتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی حکومت ایک اتحادی حکومت ہے اور وہ ہیں کہ پھر سے اس نفرت انگیز بیانیہ کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے جس کا ذکر میں اپنے کالم میں پہلے ہی کرچکا ہوں۔
مودی صاحب امریکی صدر ٹرمپ کے سب سے بڑے اتحادی ہیں، وہ امریکن کمپنیاں جوکل تک اپنے پراڈکٹ کی اسمبلنگ چین میں کرتی تھیں، اب وہ ہندوستان منتقل ہو رہی ہیں۔ صف بندی میں وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکا میں بھی ہمارے خلاف لابنگ کررہی ہیں۔
پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے مگر یہ ایک سازش ہے اور اس کا تمام فائدہ جس طرح سے ہندوستان لینا چاہتا ہے وہ نظر آ رہا ہے۔ ایسٹ ایشیاء کا کوئی ایسا ملک نہیں جو اس وقت بدترین دہشت گردی کا شکار ہو، سوائے پاکستان کے۔ ہمارے فوجی جوان پہ در پہ اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کرتے جا رہے ہیں اور یہ بات بھی دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان میں اس دہشت گردی کے پیچھے بلواسطہ یا پھر بلواسطہ ہندوستان کا ہاتھ ہے۔
کلدیپ نیر اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’’ولبھ بھائی پٹیل بارہا نہرو کو یہ سمجھاتے رہے کہ کشمیرکو اپنا حصہ مت بناؤ لیکن چونکہ نہرو کے اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو برِصغیر کے آخری وائسرائے تھے، ان کی بیوی نہرو سے بہت قریب تھیں، لہٰذا کشمیر کا ملنا ان کے لیے ایک ضد تھی۔
سر ریڈ کلف نے جس طرح سے ہندوستان اور پاکستان کا بٹوارہ کیا، وہ انتہائی غیر منصفانہ تھا۔ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیرکو خود مختاری کا حق دیتا ہے جو ہندوستان کی کسی ریاست کو میسر نہیں۔ دو تہائی اکثریت کا لبادہ اوڑھ کر مودی نے ہندوستانی آئین سے اس شق کو ختم کیا جب کہ اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا حق صرف کشمیرکے عوام کو حاصل تھا اور طریقہ کار یہ تھا کہ اس کا فیصلہ کشمیر کے لوگ خود کریں گے کہ وہ ہندوستان کا حصہ بننا بھی چاہتے ہیں کہ نہیں۔
مودی کی ہندوستان کی داخلی سیاست میں ہمیشہ یہ پالیسی رہی کہ وہ کشمیر میں اپنی ناکامیوں کو ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں اور مذاکرات کے ذریعے اپنے معاملات کو سلجھائیں۔
ہندوستان میں مودی کی حمایت اکثریتی نہیں۔ وہاں کے عوام اس بات کو بہ خوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ سرگرمیاں پاکستان کی نہیں بلکہ یہ ان کی سرکار ہے۔ کل تک یہی ماجرا پاکستان میں بھی تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ تضادات کو بڑھاوا دے کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب ایسا ممکن نہ رہا۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام میں دوریاں نہیں، دوریاں ان دونوں ممالک کی حکومتوں میں ہیں۔
اس وقت پاکستان میں بڑی انقلابی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پاکستان نے سرد جنگ والی افغان پالیسی کو ختم کردیا ہے جو چالیس سال سے ہمارے ملک پر مسلط تھی اور اب وہ ہی لوگ ہمارے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہندوستان اس جنگ کو بڑھا وا دے سکتا ہے۔ ہم ہندوستان کے حملے کی مذمت کرسکتے ہیں اور یہ بھی درست ہوگا اگر ہم ہندوستا ن کے خلاف جوابی کارروائی کریں لیکن ایسا کرنا ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اپنا بیانیہ اتنی تیزی سے تبدیل کریں۔ ہمیں دنیا کو یہ باورکروانا ہے کس طرح ہندوستان اپنا بیانیہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور اس ضمن میں اپنی افواج کو بھی حرکت میں لا چکا ہے۔
ہماری داخلی سیاست کا ہمیشہ دشمن نے فائدہ اٹھایا۔ اس وقت پاکستان کی معاشی صورتحال ماضی سے بہتر ہے۔ پاکستانی عوام اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور یقینا اس رشتے کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت اور حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اس وقت ہم سندھ طاس معاہدے کو بحال کرائیں مگرکیسے؟ یہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ہندوستان ختم نہیں کرسکتا مگر اس معاملے میں ہمیں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پانی زندگی کی بقاء ہے۔ ہندوستان کے پاس ایسا کو ئی ذریعہ یا پھر نظام نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی روک سکے اور اگر ایسا کوئی قدم ہندوستان نے اٹھایا تو بین الاقوامی قوانین یقینا ہمارے حق میں ہوںگے۔
پاکستان کی حکمتِ عملی کو زمینی حقائق کی ضرورت ہے اور انھیں حقائق پر مبنی پاکستان اپنی حکمتِ عملی جوڑے گا اور اس کی اولین ضرورت یہ ہے کہ تمام سیاسی لیڈران کو اعتماد میں لیا جائے۔ ملک کے اندر جو بھی تضادات پنپ رہے ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ ہمیں یہ چیلنجز مستقبل قریب تک رہیں گے۔
ان تمام باتوں کا واحد حل ہے مستحکم پاکستان، سیاسی، معاشی اور وفاقی اعتبار سے ہم آہنگی۔ مودی کی پالیسیز کا جواب ان کو پچھلے الیکشن میں مل گیا تھا۔ مودی کی انتہا پرستی پر مبنی حکمتِ عملی لوگوں کو پسند بھی نہیں۔ پاکستان کے خلاف ایک مخصوص بین الاقوامی سوچ ہے اور اس کو بڑھاوا دینے والی مودی سرکار۔ ہمیں ضرورت ہے ان دوستوں کی جو ہمارا مسئلہ سمجھتے ہوں اور عالمِ اقوام کے سامنے ہماری وکالت کریں۔
ہمیں مسئلہ کشمیر اور اس کے تضادات دنیا کے سامنے لانے ہیں کہ کس کس طرح یہاں ہندوستان بربریت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم ان کی اخلاقی اور سیاسی امداد کرتے رہیں گے جب کہ اپنے حقوق کی جنگ وہ خود لڑ رہے ہیں۔ پہلگام جیسے واقعات ان کی جدوجہد میں بھی رکاوٹ ہیں بلکہ یہ کشمیر کے لو گوں کے خلاف سازش ہے۔
وقت کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ ان لوگوں کو ہندوستان کے اندر شکست ہوگی جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تضادات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ جس طرح سے مودی کو پچھلے الیکشن میں ہوئی تھی باوجود اس کے کہ مودی نے ہندوستان کی معیشت کیسے سنبھالا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان امن ، یہاں خوش حالی کا ضامن ہے۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور ان دونوں ممالک کے عوام نہیں چاہتے کہ یہ جنگ ان پر مسلط کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہندوستان کی ہندوستان کے دونوں ممالک پاکستان کے کے عوام ہیں اور مودی کی کے خلاف ہیں کہ ہے اور اور اس کو ختم
پڑھیں:
جیسے کو تیسا: پاکستان نے بھارتی بحری جہازوں کا اپنی بندرگاہوں میں داخلہ بند کردیا
پاکستان نے بھارتی جنگی جنون کا جواب دیتے ہوئے بھارتی پرچم بردار بحری جہازوں کا پاکستانی بندرگاہوں میں داخلہ فوری طور پر بند کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ: سوئٹزر لینڈ کے بعد یونان نے بھی پاکستان کی تجویز کی حمایت کردی
اس حوالے سے وزارت بحری امور نے باضابطہ حکم نامہ جاری کر دیا، جس کے تحت کوئی پاکستانی پرچم بردار بحری جہاز بھی بھارتی بندرگاہوں پر لنگر انداز نہیں ہوگا۔
قبل ازیں بھارت نے کہا تھا کہ پاکستانی پرچم والے جہازوں کو اس کی کسی بھی بندرگاہ پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور ہندوستانی پرچم والے جہاز پاکستان کی کسی بندرگاہ کا دورہ نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے میں 26 سیاح کی ہلاکت کے واقعے کے بعد بھارتی حکومت نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے اور پاکستانیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد پاکستان نے اپنی فضائی حدود بھارتی پروازوں کے لیے بند کردی تھی۔
مزید پڑھیے: پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان کا ردعمل ذمہ دارانہ رہا، بھارت ثبوت دینے میں ناکام رہا ہے، وزیر اعظم محمد شہباز شریف
پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے جواب میں 24 اپریل کو بھارت سے ہر طرح کی براہِ راست اور کسی اور ملک کے ذریعے تجارت پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی۔
پاکستان کی جانب سے پہلگام واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کی پیشکش بھی کی گئی جس کا بھارت کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں دیا گیا جبکہ چین، ترکیہ اور سوئٹزر لینڈ سمیت کئی ممالک نے پاکستان کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی بحری جہازوں پر پابندی پاک بھارت کشیدگی پہلگام واقعہ