پاکستان کا چین کیساتھ تجارتی خسارہ بڑھ کر 14 ارب 37 کروڑ ڈالر ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )گذ شتہ مالی سال کے دوران پاکستان کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ بڑھ کر 14 ارب 37 کروڑ ڈالر پر پہنچ گیا۔ مالی سال 25-2024 کے دوران چین کے ساتھ پاکستان کے تجارتی خسارے میں سالانہ بنیادوں پر 2 ارب 42 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، جب کہ گزشتہ صرف ایک ماہ کے دوران چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ ایک ارب 16 کروڑ ڈالر رہا۔پاکستان کی چین کے لیے برآمدات اور چین سے درآمدات میں فرق مزید بڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ مالی سال چین سے 16 ارب 75 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں اور چین کے لیے پاکستانی برآمدات 2 ارب 38 کروڑ ڈالر رہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں پاکستان کاچین کے ساتھ تجارتی خسارہ 11 ارب 95 کروڑ ڈالر تھا، مالی سال 24-2023 میں چین سے درآمدات کا حجم 14 ارب 51 کروڑ ڈالر اور چین کے لیے پاکستانی برآمدات 2 ارب 56 کروڑ ڈالر تھیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کرپٹو میں 100ملین ڈالر ڈوبنے کا معاملہ،کس کے پیسے تھے ، کس نے ڈبوئے؟ بالآخر اصل کہانی سامنے آگئی
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن)تجزیہ کار عثمان شامی نے حکمران خاندان کے100ملین ڈالر ڈوبنے کی تمام تر تفصیل بیان کردی۔ان کاکہناتھا کہ یہ دوسے تین سال پرانی کہانی ہے اور اس حوالےسے علی ڈار کوقانونی کارروائی کاسامنا ہے۔
نجی نیوز چینل دنیا نیوز کے پروگرام'تھنک ٹینک ، میں گفتگوکرتے ہوئے عثمان شامی نے بتا یا کہ یہ آج کی کہانی نہیں ہے، دو تین سال پہلےعلی ڈار نے ایک کرپٹوکا پراجیکٹ لانچ کیا جس کا نام 'کووئنٹ ،تھا۔ لوگوں نے اس پراجیکٹ میں پیسے انویسٹ کیے، دبئی سے بھی پراجیکٹ کےلیےفنڈ نگ کی گئی، اس پراجیکٹ سےمطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور کوائن ڈمپ کر گیا۔ اس پراجیکٹ کے نقصان کا ازالہ کرنے کےلیے علی ڈار نے ایک اور کرپٹو کوائن 'planet، کے نام سے لانچ کیالیکن اس بار بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے اور یہ کوائن بھی ڈمپ کر گیا۔
نوجوان کارکنوں کی تلاش میں کالجوں کا رخ کیا،خاص ردِعمل نہ آنے پر محسوس کیا کہ نوجوانوں میں سماجی کام کا جذبہ مفقود ہو کر رہ گیا ہے
تجزیہ کار نے بتایا کہ ان پراجیکٹس میں جن لوگوں کے پیسے انویسٹ تھے وہ متحدہ عرب امارات کی بڑی کاروباری شخصیات اور کمپنیاں تھیں، جب ان کی انویسٹمنٹ ڈوب گئی تو انہوں نے قانونی چارہ جوئی کی، اس طرح یہ خبر باہر آگئی۔عثمان شامی کاکہناتھاکہ اب اس خبر پر کچھ صحافی دوست طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا، اس کی منی ٹریل تلاش کریں۔انہوں نے بتایاکہ ان پراجیکٹس کےلیے پاکستان سے کوئی پیسہ نہیں گیا، ان کا دبئی میں بزنس وینچر تھا اور اب انویسٹر علی ڈار کے پیچھے پیچھے ہیں،اس معاملے میں ڈار فیملی کو مشکل پیش آ سکتی ہے لیکن اس معاملےمیں اسحاق ڈار کاکوئی لینا دینا نہیں ہے۔ان کاکہنا تھا کہ اس بات کواستعمال کر کے پاکستان کےکرپٹو اقدامات پرتنقید کی جارہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپٹو پر جتنا کام ہو رہا ہے ، پہلی مرتبہ پاکستان نے کسی ٹیک میدان میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے، پاکستان میں کرپٹو سے متعلق اقدامات کے ناقد اپنی جہالت میں ان لوگوں کوٹارگٹ کر رہے ہیں جو کرپٹو کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔عثمان شامی نے مزید کہا کہ جولوگ کرپٹوسے وابسطہ ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ چند ماہ میں کرپٹو سے متعلق جتناکام پاکستان میں ہوا شائد کسی اور ملک میں دس سال میں بھی اتنا کام نہ ہوا ہو،چند لوگ ایک شخص کے انفرادی فعل کوبنیاد بنا کرپاکستان میں ہونے والے اچھے کام کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماں کی دعا سے کوئی حادثہ نہ ہوا، ابن العربی کہتے ہیں ”ہمیں پتہ ہی نہیں ہوتا اور ہمارا اللہ ہمیں کس کس مقام پر گرنے سے پہلے ہی تھام لیتا ہے“
مزید :